اصطلاح ‘اسلام پسند دہشتگردی’اور بڑھتا ہوا اسلاموفوبیا
گزشتہ دنوں جرمن وائس چانسلر ترکی کے دورہ پر تشریف لائیں، صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دہشتگردی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے "اسلام پسند دہشتگردی” کی اصطلاح کا دو بار استعمال کیا، جس پر فوری ردعمل دیتے ہوئے صدر ایردوان نے مرکل کو یہ اصطلاح استعمال کرنے سے روک دیا، انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ داعش کی دہشتگردی کو آخر داعش کی دہشتگردی ہی کیوں نہیں کہا جاتا؟ اسے اسلام پسندوں کی دہشتگردی کا نام کیوں دیا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسی اصولی بات ہے جس پر ہمیں کھل کر بات کرنا چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں رہنے والے مسلمان خصوصاً یورپی اور امریکی میں مقیم مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔
آج یورپ اور امریکا میں مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں، مساجد کو آگ لگائی جا رہی ہے، باپردہ مسلمان عورتوں کے پردے نوچے جا رہے ہیں اور انہیں نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے اور یہ سب اس شخص کی زیر صدارت جاری ہے جسے امریکیوں کی اکثریت نے ووٹ دئیے ہیں۔ امریکیوں اور یورپین کو ایک پُرامن اور مہذب معاشروں میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت سے کس نے نوازا ہے۔ داعش اور بوکو حرام جیسی دہشتگرد تنظیمیں جو غیر انسانی افعال، مسلمانوں جیسے چہرے بنا کر کرتے ہیں، اس کے ذمہ دار امریکا اور یورپ میں رہنے والے مسلمان کیوں ہو سکتے ہیں جب وہ کھلم کھلا اس سے برآت کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
یہ امریکی اور یورپی قیادت اور ان سے جڑے تھنک ٹینک کا ہی کیا دھرا ہے کہ وہ داعش کی دہشتگردی کو "اسلام پسندوں کی دہشتگردی” کہہ کر بلاتے ہیں اور اسلام پسندوں میں پوری دنیا کے مسلمان شامل ہیں، آخر کون سا ایسا مسلمان ہو سکتا ہے جو اسلام کو پسند بھی نہ کرے اور اسے مسلمان کہلائے۔ ساری دنیا کے مسلمان اسلام پسند ہیں۔ اسی وجہ سے خود امریکی اور یورپی جو آج کل مسلمانوں پر حملہ آور ہیں، مسجدیں جلا رہے ہیں اورپردے نوچ رہے ہیں وہ اسلام پسند دہشتگردی کی اصطلاح کا اطلاق جو تمام اسلام پسندوں پر کرتے ہیں اور نفرت کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
صدر رجب طیب ایردوان کے اس موقف کو دنیا کے ہر مسلمان کو اپنانا ہو گا اور داعش اور مسلمانوں کے فرق کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرنا ہوگا اور انہیں روکنا ہوگا کہ "اسلام پسند کی دہشتگردی” کی اصطلاح کا استعمال مکمل طور ختم کیا جائے تاکہ دنیا بھر اور خصوصاً یورپ اور امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات میں کمی آ سکے۔