القدس میں اذان پر پابندی کے بل کی منظوری نا قابل برداشت ہے: محمد غورماز

0 2,845

ترکی کے محکمہ مذہبی امور کے سربراہ محمد غورماز نے القدس اور مقبوضہ فلسطینی شہروں میں اذان پر پابندی کے بل کی مذمت کرتے ہوئے کہا القدس میں اذان پر پابندی کا مطلب اس تاریخی زمین سے اسلام اور مسلمانوں کے وجود سے انکار ہے- صہیونی ریاست کی طرف سے مساجد پر پابندی کا قانون نسل پرستی کا مظہر، صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی علامت، بین الاقوامی قوانین، بنیادی انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی ہے-

غورماز

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ القدس میں اذان پر پابندی کے بل کی منظوری نا قابل برداشت ہے- القدس مسلمانوں مقدس مقامات میں سے ایک ہے اور اہمیت کے لحاظ سے مکہ اور مدینہ کے بعد آتا ہے- یہ مقامات مسلمانوں کی موجودگی اور مذہبی آزادی کی علامات ہیں ان کو کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا-

انہوں نے کہا کہ اگر تم مؤذنوں پر پابندی لگاؤ گے تو ساری کمیونٹی مؤذن بن جائے گی- اور اکهٹے اذانیں دے کر اس بل کی منظوری کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرے گی- مساجد نہ صرف نماز پڑهنے کی جگہ ہے بلکہ مرکز کی حیثیت رکهتی ہے جہاں لوگ پر امن طریقے سے اکٹهے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مل جل کر مدد کرتے ہیں-

کنیسٹ (پارلیمنٹ) ﻣﯿﮟ اس ﻣﺘﻨﺎﺯﻉ بل کو کافی عرصہ ﺳﮯ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺸﯿﮟ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ- ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ بل ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﮯ ﺷﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺷﻤﺎﺭﯼ کی ﻣﻨﻈﻮﺭی ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ کو ﺣﺘﻤﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺭﺍﺋﮯ ﺷﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ- اگر یہ بل پارلیمنٹ سے بهی منظور ہو جاتا ہے تو پهر مساجد میں اسپیکر پر اذان دینے کی اجازت نہیں ہوگی-
ﺑﻞ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ کہنا ہے ﮐﮧ ﺍﺫﺍﻥ کی آواز سے ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﭘﺬﯾﺮ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ۔
نئے ترمیمی بل کے تحت رات 11 سے صبح 7 بجے تک مساجد میں لاؤوڈ سپیکر پر اذان دینے کی پابندی ہوگی-

صہیونی ریاست کی طرف سے اذان پر پابندی کے قانون پر عمل درآمد کرانے کے لئے بهاری جرمانے اور قید کی سزائیں بهی مقرر کی گئی ہیں-

قانون کے تحت ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍلی مساجد، انتظامیہ، امام یا مؤذن ﮐﻮ 1300 $ سے 2600 $ تک کا ﺟﺮﻣﺎﻧﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﺮﺏ ﺍﺭﺍﮐﯿﻦ پارلیمنٹ ﻧﮯ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﺬﻣﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﻮﺯﮦ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻧﺴﻞ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻃﻼﻋﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﻭٔﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﺻﮩﯿﻮﻧﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺩﺭﺍٓﻣﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔
ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻭﺯﯾﺮ ﺍﻭﻗﺎﻑ ﻭﻣﺬﮨﺒﯽ ﺍﻣﻮﺭ ﺍﻟﺸﯿﺦ ﯾﻮﺳﻒ ﺍﺩﻋﯿﺲ ﻧﮯ ﺍﺫﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ﺻﮩﯿﻮﻧﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﻧﺴﻞ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﺷﮑﻞ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺫﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﯿﮍﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺎﺋﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮮ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺑﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺸﯿﺦ ﺍﺩﻋﯿﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﻦ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﺎﺩ ﺩﻋﻮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺟﻮﮦ ﮐﯽ ﺍٓﮌ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺻﮩﯿﻮﻧﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻋﺎﺋﺪ ﮐﺮﮐﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﮮ، ﻣﺬﮨﺐ ﺍﻭﺭ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﺧﻞ ﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﮐﺮﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﻋﻼﻭﮦ ﺍﺯﯾﮟ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻭﺯﯾﺮ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺍﻣﻮﺭ ﻭ ﺍﻭﻗﺎﻑ ﻧﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﯿﺨﻼﻑ ﺍٓﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﭘﺮ ﻋﻤﻠﺪﺭﺍٓﻣﺪ ﺭﮐﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﻻوﻭٔﮈ ﺍﺳﭙﯿﮑﺮ ﭘﺮ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺻﺮﻑ ﺍﺫﺍﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﻞ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﺟﺪ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﭘﯿﺶ ﺧﯿﻤﮧ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﻨﻈﻢ ﭘﺎﻟﯿﺴﯽ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﻓﻠﺴﻄﯿﻨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ کو ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻘﺪﺱ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺎﺋﺮ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺸﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: