سیکولرترکی کے محافظ ادارے میں حجاب پر پابندی ختم – ڈاکٹر فرقان حمید

0 2,927

ڈاکٹر فرقان حمید پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے انقرہ یونیورسٹی سے ترک زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1994ء میں وہ نہ صرف انقرہ یونیورسٹی میں ماہر زبان تعینات ہوئے بلکہ ٹی آر ٹی کی اردو سروس کے لیے ترجمان کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینا شروع کر دیں۔ وہ کئی اخبارات اور خبر رساں اداروں کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ انہیں کئی بار ترک صدور کے ساتھ ترک اردو ترجمانی کا اعزاز بھی ملا ہے۔ اس وقت وہ پاکستانی نیوز چینل جیو، اخبار جنگ اور ٹی آر ٹی کی اردو سروس کے سربراہ ہیں۔ وہ ہفتہ وار جنگ اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔

ڈاکٹر فرقان حمید

جدید جمہوریہ ترکی  جو کہ ایک سیکولر ملک ہے  اور جس کی آبادی  کا ننانوے فیصد حصہ  مسلمانوں پر مشتمل ہے  کے 1923ء  کے پہلے آئین میں   ہیڈ اسکارف  پر پابندی  سے   متعلق  کوئی  شق  موجود نہیں  ہے لیکن اتاترک  نے ملک میں   پردے  پر پابندی   اس وقت لگائی  جب غیر ملکی قوتوں نے ان پردہ نشین خواتین کو جاسوسی کرنے اور اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیااور مملکت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔ اتاترک نے مملکت کو دشمن کے پنجے سے بچانے کے لئے اور اندورن خانہ پہنچنے والے نقصان سے بچنے کے لئے نقاب اوڑھنے پر پابندی عائد کر دی تھی اور اس وقت سے اس  پابندی کا سلسلہ جاری تھا لیکن اتاترک کی اس سوچ کو بعد میں آنے والے رہنماؤں نے غلط استعمال کیا جس میں عصمت انونو پیش پیش تھے۔ 1960 میں فوج کی جانب سے تیارکردہ آئین میں پہلی تین شقوں جس میں تیسری شق مہذب اور جدید لباس سے متعلق تھی ان تین شقوں میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کرنے کا حق پارلیمینٹ سے چھین لیا گیا 1982ء  کے آئین میں جنرل کنعان ایورن  نے اسے جوں کا  توں برقرار رکھا اور ایردوان دور تک اس پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رہا۔آئین کی رو سے پارلیمینٹ میں کوئی بھی جماعت چاہے اسے کلی اکثریت ہی کیوں نہ حاصل ہو ان تین شقوں پر بحث و مباحثہ کرنے یا ترمیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی۔ جنرل کنعان ایورن کے مارشل لا کے بعد ترگت اوزال حکومت نے ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ہیڈ اسکارف کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اس موضوع کو یونیورسٹیوں کے چانسلروں اور ریکٹرز پر چھوڑ دیا اور اس طرح کئی ایک یونیورسٹیوں میں طالبات نے ہیڈ اسکارف اوڑھتے ہوئے اعلی تعلیم کو جاری رکھا لیکن ترگت اوزال کے بعد ملک میں بائیں بازو کی نام نہاد سیکولر جماعتوں کے برسراقتدار آنے کے بعد اس نظام پرعمل درآمد روک دیا اوریہ اختیارہائر ایجوکیشن کمیشن کے سپردکر دیا گیا جس نے ایک بار پھر یونیورسٹیوں میں ہیڈ اسکارف پر پابندی عائد کردی جس پرملک بھر میں شدید ردِعمل کا مظاہرہ کیا جانے لگا اور ان مظاہروں نے پورے ترکی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان حالات میں ملک میں قائم ہونے والی نئی جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی (آق پارٹی)نے ان طالبات کے مطالبے کی بھرپور حمایت کی اور پھر عوام کی بھرپور تائید کی بدولت اس جماعت نے ملک میں 2002ءمیں پہلی بار اقتدار حاصل کیا لیکن اپنے اقتدار کے پہلے آٹھ سالوں تک(قانونی مجبوریوں کے باعث) یہ حکومت طالبات کے مطالبات کو پورا نہ کر سکی ۔وزیراعظم رجب  طیب ایردوان اس بات سے پوری طرح واقف تھے کہ اس مسئلے کو اس وقت تک حل نہیں کیا جاسکتا جب تک ملک میں  فوج اور عدلیہ کا  دباو جاری رہے گا۔  انہوں نے ملک میں   عدلیہ اور فوج کے دباو کو کم کرنے کے لیے سب سے پہلے  ملک کو  اقتصادی ترقی پر گامزن کیا  اور اسے یورپی ممالک  کے معیار کے عین مطابق نہ  صرف   لاکھڑا کیا  بلکہ   عوم کے معیار کو بھی بہتر بناتے ہوئے ان کو بھی اپنے حقوق کادفاع  کرنے کا  شعور عطا کیا۔ انہوں فوج  میں بھی اصلاحات  کرواتے ہوئے   حکومت کے معاملات  میں فوج  کی دخل اندازی  کے تمام راستوں  کو مسدود کردیا بلکہ  فوج کو حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنے  کا پابند بنادیا۔ فوج ا ور عدلیہ   کو  راہِ راست پر  لانے کے بعد وزیراعظم ایردوان نےپارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں  کی حمایت حاصل کرتے ہوئے سب سے پہلے طالبات  پر ہیڈ اسکارف پہن کر  یونیورسٹیوں میں داخل ہونے   کی پابندی کو ختم کیا۔طالبات پر ہیڈ اسکارف کی پابندی کو ختم کرنے کے بعد  ملک کے سرکاری اداروں میں  ہیڈ اسکارف پہن کر  ملازمت کرنے کی  بھی پابندی  کو ختم  کرنے کے لیے  ملک کے آئین میں ترامیم کرنے کی ضرورت تھی  اور ایردوان حکومت نے  پارلیمنٹ میں اس   بارے میں  قوانین میں ترامیم   کروائیں  اور   ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین پر  ملک کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری  اداروں کی  ملازمتوں کے دروازے کھول دیے ۔  علاوہ ازیں انہوں قومی اسمبلی جو   ایک لحاظ سے  سیکولرازم کے قلعے کی حیثیت رکھتی تھی  نےاس قلعے کو  بھی   فتح  کرنے کا فیصلہ کیا  اور بڑی  ذہانت اور  خوش اسلوبی سے  اس مسئلے کو ایک ایسے وقت میں حل کیا جب  مارچ 2014 ء میں ملک میں  بلدیاتی انتخابات  ہونا  تھے ۔اس دور میں  حج پر جانے والی آق پارٹی   کی   چار خواتین اراکینِ  پارلیمنٹ  نے فریضہ  حج کی ادائیگی کے بعد    اپنے سر کو ہیڈ اسکارف  سے ڈھانپنے  کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا  اور اپنے اس فیصلے سے وزیراعظم ایردوان  کو آگاہ کیا۔ ان چاروں خواتین کو    ہیڈ اسکارف پہننے کے بارے میں  وزیراعظم کی بھی آشیر باد حاصل ہوچکی تھی ۔  آق پارٹی کی ان چار خواتین  کے ہیڈ اسکارف  پہننے کے عمل کی   پارلیمنٹ  میں موجود   دیگر تین سیاسی جماعتوں میں سے نیشنلسٹ موومنٹ  پارٹی اور  پیس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی نے  اپنی حمایت کا اعلان کردیا  جس  پر پارلیمنٹ میں   موجود  حزبِ اختلاف کی جماعت   رپیبلیکن  پیپلز پارٹی نے  مرحوم  بلنت ایجوت جیسی صورتِ حال سے بچنے کے لیے اس بار  پارٹی کے طور پر  کھل کر مخالفت  نہ کرنے کا فیصلہ کیا  اور پارٹی اراکین کو اس بارے میں اپنی رائے دینے کی مکمل آزادی دے دی اور یوں سیکولرازم  کے اس قلعے کو  ایردوان  نے  فتح کرتے ہوئے  پارلیمنٹ   کے اس ظلم کو ہمیشہ ہمیشہ  کے لیے ختم کردیا۔ اس کے بعدمیں ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون جج نےہیڈ اسکارف پہن کر   ایک عدالتی کارروائی کی صدارت  کی   اور  ہیڈ اسکارف پہننے والی وکیلوں اور ججوں کے لیے عدلیہ کے دروازے کھول دیے۔ اور پھر   وزیراعظم  احمد داؤد اوّلو   کے دور میں 15 اگست 2015ء میں تشکیل پانے والی نئی حکومت میں "عائشین  گیورجان”جو کہ ہیڈ اسکارف   پہنتی تھیں   کو وزیر مقرر کیا گیا اور ترکی کی تاریخ میں  پہلی بار  ہیڈ اسکارف   پہننے والی  خاتون وزیر مقرر ہوئیں اور یوں   ملک میں   ہیڈ اسکارف  پہننے والی خواتین   اراکینِ  پارلیمنٹ   کے وزیر بننے کی بھی راہ ہموار ہوگئی۔ترکی میں عوامی زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی طرف سے ہیڈ اسکارف پہننے کے حق میں کیے جانے والے متعدد قانونی اور حکومتی فیصلوں کے باوجود ملکی فوج اور سکیورٹی فورسز کے شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین کو ہیڈ اسکارف پہن کر فرائض سرانجام دینے کی اجازت حاصل نہ تھی  لیکن  یکم  مارچ  2017ءکو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان  نے  دورہ پاکستان کے بعد  وطن واپسی پر طیارے میں   صحافیوں  کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے   واضح کردیا کہ   غیر  ممالک جن میں متحدہ امریکا اور برطانیہ  پیش پیش  ہیں  میں فوج میں  خواتین کو   ہیڈ اسکارف   پہن کر کام کرنے کی اجازت حاصل ہے تو پھر ترکی جس کی   ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں     فوج میں    ہیڈ اسکارف پہن کر فرائض سرانجام دینے کی اجازت کیوں  نہیں ہوسکتی؟  انہوں نے کہا کہ   گزشتہ سال ہم نے پو لیس میں ہیڈ اسکارف  پہن کر فرائض سرانجام دینے کی پابندی کو ختم کروایا   تھا  اور اب   فوج میں   عملی اصلاحات کا باضابطہ حکم بھی جاری کر واتے ہوئے   ہیڈ اسکارف  کی پابندی کو ختم کروادیا گیا ہے۔  اس پابندی کے خاتمے کا اطلاق ترک مسلح افواج میں جنرل سٹاف، کمانڈ ہیڈکوارٹرز اور ان کے جملہ ذیلی شعبوں میں فرائض انجام دینے والی تمام خواتین افسران اور فوجیوں پر ہو گا اور یوں صدر رجب طیب ایردوان نے  فوج میں ہیڈ اسکارف  پر پابندی پر آخری کیل ٹھونک  کر مذہبی اور ہیڈ اسکارف والی خواتین   کے لیے فوج کے دروازے کھول دیے ہیں   ۔ماہرین کے مطابق انقرہ میں وزارت دفاع کا یہ اقدام اس لیے بھی بہت زیادہ علامتی اہمیت کا حامل ہے کہ ترکی میں مسلح افواج ہی وہ قومی ادارہ ہیں، جو موجودہ جمہوریہ ترکی کے سیکولر کردار کا ضامن اور اس کردار کے دفاع کا پابند سمجھا جاتا ہے۔اس طرح  ترک فوج جو ہمیشہ ہی  سرکاری اداروں میں   ہیڈ اسکارف  پہن  کر فرائض سرانجام دینے  کو سیکولرازم  کی  خلاف  ورزی سمجھتی رہی ہے  اب  اس ادارے میں  بھی ہیڈ اسکارف  پہن کر فرائض سرانجام دینے کی اجازت  دینے سے  ہیڈ اسکارف پہننے والی  خواتین  کے لیے  ترکی کے تمام سیا اداروں کے دروازے  پوری طرح کھل گئے ہیں  جو کہ صدر ایردوان  کی بہت بڑی کامیابی ہے جسے وہ   صدارتی ریفرنڈم  میں لازمی طور پر کیش کروائیں گے۔  

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: