ایک قوم، ایک جھنڈے، ایک وطن اور ایک ریاست کے لیے ‘ہاں’ کہیں: صدر ایردوان

0 1,474

سیاست، معیشت اور سماجی تحقیقات کی فاؤنڈیشن (سیٹا) کے زیر اہتمام ایوان صدارت میں منعقد ہونے والے صدارتی نظام پرسمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ صدارتی نظام نیا موضوع نہیں ہے یہ واضع اور خیالات کو جلا بخشنے والا پس منظر رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا، "اگر ہم بحیثیت قوم اور ملک اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہماری پہلی ضرورت ایک مضبوط اور موثر نظام حکومت ہے جس میں ذمہ داریوں اور طاقت کو وضاحت کے ساتھ قائم کی گئی ہوں”۔

جن ممالک میں صدارتی نظام قائم ہے وہاں مطلق العنانیت اور شہنشاہیت نہیں ہے

صدر ایردوان نے کہا، "اقوام متحدہ کے 200 رکن ممالک میں سے ہر ایک اپنا الگ نظام حکومت رکھتا ہے جو اپنے تاریخی، سماجی اور ثقافتی حوالوں سے مختلف ہیں۔ یہ مختلف نظام حکومت ہمیں صرف ایک عمومی آئیڈیا دیتے ہیں”۔

مختلف ممالک میں پارلیمانی اور صدارتی نظام کے تحت مختلف انتظامی طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا، "بطور نظریہ، پارلیمانی نظام حکومت، شہنشاہیت اور مطلق العنانیت کے خلاف جدوجہد کا حاصل ہے۔ جب ہم یورپی ممالک کو دیکھتے ہیں وہاں اکثر میں شاہ اور ملکائیں موجود ہیں۔ ایسی ہی صورتحال ہم دوسری جگہوں پر بھی دیکھتے ہیں جیسے جاپان اور تھائی لینڈ۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں ‘یہ شہنشاہ صرف علامتی ہیں، اصل میں وہاں پارلیمانی جمہوریت ہے’۔  اگر کسی ریاست کے نظام حکومت میں ایک کردار موجود ہے وہ علامتی کبھی نہیں رہ سکتا، اگر کسی ملک میں کوئی بادشاہ ہے تو وہ باشادہ ہے اور اگر کوئی ملکہ ہے تو وہ ملکہ ہے۔ کوئی شخص جو تاج پہنتا ہو اور تخت یا گدی پر بیٹھتا ہو تو اس ملک کی حکومت میں اس کا کردار واضع ہے۔ جن ممالک میں صدارتی نظام ہے وہاں کوئی شہنشاہیت اور مطلق العنانیت نہیں ہے”۔ 

ہر ملک ایک منفرد طرز حکومت رکھتا یے

ہر ملک اپنے پس منظر کے ساتھ منسلک نظام حکومت رکھتا ہے اور گزشتہ 200 سال میں ترکی کے مسائل اور تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا، "18ویں صدی میں جو تلاش اور انتشار بغیر رکاوٹ کے جاری رہا تھا اس کا نتیجہ تنظیمات اور مشاورت (آئینی دور) کی صورت میں نکلا۔ اس عمل میں ہمارا ملک مسلسل جنگوں اور چیخوں میں گھلتا رہا اور ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ چناق قلعے کی فتح یہ اعلان تھا کہ اب یہ مزید قابل برداشت نہیں۔ ہر جدوجہد نے اس دستے کے لیے اختیارات اور رجحانات کے راستے پیدا کیے جو یہ جدوجہد کر رہا تھا۔ ری پبلک کا اعلان ہماری جنگ آزادی کی فتح کا حاصل تھا جو ہم نے اپنے اختیار سے چن لیا۔ ہم نے شاہی گھرانے کو ملک سے علیحدہ کیا اور ری پبلک کا اعلان کیا۔ پہلے پہل یہ ایک پارٹی حکومت پر چلتا رہا، پھر دوسری پارٹیوں کی اجازت ملی اور آج ہم یہاں پہنچ چکے ہیں۔ میں مرکزی اپوزیشن جماعت سے کہنا چاہتا ہوں وہ وہی ایک پارٹی تھی اور باقی پارٹیاں بعد میں آئیں”۔

سیاسی عدم استحکام معاشی اور سماجی مسائل پیدا کرتا ہے

صدر ایردوان نے کہا، "ری پبلک دور مختلف خصوصیات سے خالی نہیں رہا۔ 1921ء اور 1924ء کے آئین میں واضع فرق تھا۔ اور پھر جب ہم 1961ء اور 1982ء کے آئینی دستاویز کا ان سے موازنہ کرتے ہیں تو وہ اس سے بہت مختلف تھیں”۔ انہوں نے مزید کہا، "غازی مصطفےٰ کمال کے بطور صدر اور پارٹی سربراہ اور عصمت انونو کے بطور صدر اور پارٹی سربراہ ہونے میں بہت فرق تھا۔ 1950ء کے بعد ہم کثیر جماعتی دور میں داخل ہوئے۔ ہماری جمہوریت فوجی بغاوتوں اور  کٹھ پتلی انتظامیہ کی چھتری تلے جاری رہی۔ پچھلے 14 سالوں میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ ان مسائل کی جڑوں پر قابو پا لیا ہے”۔

انہوں نے مزید کہا، "درحقیقت ہم نے کوشش کی ہے کہ مسائل پر قابو پا لیں اور اس سلسلے میں عوامی قوت کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن اس نظام کے اندر جو غلطیاں اور بے ضابطگیاں موجود ہیں وہ ختم نہیں ہوئیں۔ ان بے ضابطگیوں کا نتیجہ ہی ہے کہ استحکام اور اعتماد کا ماحول مسلسل خطرات کے نشانے پر ہے”۔ انہوں نے کہا، "سیاسی عدم استحکام معاشی اور سماجی مسائل پیدا کرتا ہے۔ ہماری مملکت کی عمر 93 سال ہے اور 65ویں حکومت چل رہی ہے۔ مطلب ایک بھی حکومت 16 ماہ سے زائد نہیں چل پائی۔ ترکی چھوٹے چھوٹے عرصہ چلنے والی حکومتوں کے تحت چلتا رہا اور باقی ممالک کی طرح پرفارم نہ کر سکا۔نتیجتاً ترقی اور خوشحالی میں پیچھے رہ گیا”۔

جس صدارتی نظام کی ہم بات کر رہے ہیں وہ ترکی کے کئی مسائل کا بہترین حل ہے

صدر نے کہا، "اگر ہم بحیثیت قوم اور ملک اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہماری پہلی ضرورت ایک مضبوط اور موثر نظام حکومت ہے جس میں ذمہ داریوں اور طاقت کو وضاحت کے ساتھ قائم کی گئی ہوں صدر ایردوان نے کہا کہ صدارتی نظام نیا موضوع نہیں ہے یہ واضع اور خیالات کو جلا بخشنے والا پس منظر رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا، "اب ہمیں ری پبلک کا کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں جمہوریت اور آزادی کا مسئلہ بھی نہیں۔ جس نظام کی بات ہم کر رہے ہیں وہ ترکی کے مسائل کا بہترین حل ہے جن مسائل کو ترک ملت صدیوں سے جھیل رہی ہے”۔ مزید کہا، "اب ترکی کو مضبوط بنانے کا سوال ہے، ایک موثر نظام حکومت نہ ہونے کا مسئلہ ہے جس سے ہم اپنے تجربات کی روشنی میں اپنے اہداف حاصل کر سکیں۔ صدارتی نظام کی سچی خصوصیت یہ ہے کہ یہ جمہوریت پر قائم کیا جا رہا ہے”۔

انہوں واضع طور پر کہا، ہم ایک قوم، ایک جھنڈے، ایک وطن اور ایک ریاست کے لیے آئینی ترامیم کیلئے "ہاں” کہیں گے۔

صدر ایردوان نے کہا، "صدارتی نظام عوام کو براہ راست اختیارات دیتا ہے۔ صدر جس کے پاس انتظامی ذمہ داریاں ہوں گی عوام پر نظر رکھے گا کیونکہ ہر مرحلے پر وہ عوام کو جوابدہ ہے”۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: