ترکی میں ریفرنڈم – عنایت شمسی
سولہ اپریل کو رجب طیب ایردوآن کی قیادت میں جمہوریہ ترکی ایک نیا سنگِ مِیل عبور کرنے جا رہا ہے۔ رائے عامہ کے رجحان اور جوش و خروش کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رجب طیب ایردوآن اس سنگ میل کو بھی کامیابی سے عبور کرکے اپنی منزل کی طرف نہایت اہم قدم اٹھائیں گے۔
رجب طیب ایردوآن جدید ترکی کی تاریخ میں اتاترک مصطفی کمال پاشا کے بعد طویل ترین عرصہ منتخب حکمران رہنے والے رہنما ہیں۔ وہ 2003ءمیں وزیر اعظم منتخب ہوئے اور 2014ءتک مسلسل اس منصب پر فائز رہے۔ 2014ءمیں انہوں نے آئینی تقاضوں کے پیش نظر صدارت کا انتخاب لڑا اورتا حال اس عہدے کا وقار بڑھانے میں جتے ہوئے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے متعدد مفید آئینی و قانونی اصلاحات کیں۔ ان میں ایسی اصلاحات بھی شامل ہیں، جن کا تعلق ان کے کاز اور نصب العین سے تھا اور متعدد ایسی آئینی و قانونی اصلاحات بھی انہوں نے متعارف کرائیں جو خالص عوامی فلاح و بہبود سے تعلق رکھتی تھیں۔ رجب طیب ایردوآن مرد میدان (Man of action) ہیں، ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ وہ صرف خواب نہیں بُنتے، ان کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ وہ کن مشکلات کے بریکرز اپنی راہ سے ہٹا کر وزرات عظمیٰ کے منصب تک پہنچے، یہ الگ داستانِ جہد و عزیمت ہے۔ دنیا میں کئی ایک سیاسی رہنما آئے، جنہوں نے رجب طیب ایردوآن کی طرح جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے اپنا مقام بنایا۔ لوگوں کی اکثریت کو قائل کرکے ان کے دل میں گھر کر لیا اور ان کی مقبولیت کے کندھے پر سوار ہو کر اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچے، مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد ان خوابوں کو عمل سے ہم آہنگ نہیں کر سکے، جو وہ لوگوں کی پلکوں پر سجا آئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی مقبولیتِ عامہ بھی شدید متاثر ہوئی۔ لوگوں نے جو امیدیں وابستہ کرکے انہیں دل میں جگہ دی تھی، اب مایوس ہو کر دل کے آئینہ خانے سے ان کی تصویر اتار پھینک دی۔ رجب طیب ایردوآن کو اقتدار کے ایوان میں داخل ہوئے ڈیڑھ عشرہ ہونے کو ہے، اس عرصے میں ان کی مقبولیت میں کمی تو کیا آتی، روز بروز اور لمحہ بہ لمحہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یقینا یہ ان کی اس شاندار کارکردگی کا صلہ ہے، جو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ دکھاتے چلے آرہے ہیں۔
رجب طیب ایردوآن دو سال سے صدرِ جمہوریہ ہیں۔ ترکی کا موجودہ نظام پارلیمانی ہے۔ اس نظام کے دائرے میں وزیر اعظم ہی با اختیار سربراہِ حکومت ہوتا ہے۔ صدر کو وزیر اعظم جتنے اختیارات نہیں ہوتے، مگر ایردوآن نے اختیارات کی کمی کو قوم کی خدمت کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ دستورِ دنیا کے مطابق ان کے لیے نہایت معقول جواز موجود ہے کہ ان کے ہاتھ میں اختیارات نہیں ہیں، مگر ایک لیڈر اور محض حکمران میں یہی فرق ہوتا ہے کہ لیڈر قیادت کرتا ہے، رہنمائی کرتا ہے، راہ نکالتا ہے، ایک در بند ہو تو دوسرا کھولتا ہے۔اس کے پیش نظر اپنی قوم کی تعمیر و ترقی اور فلاح و بہبود ہوتا ہے۔ وہ اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اس مقصد کے لیے اس کا دائرہ عمل کس قدر وسیع اور کتنا تنگ ہے۔ایردوآن صحیح معنی میں اپنی قوم کے لیڈر ہیں، اس لیے انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ با اختیار وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اور کم اختیارات کے حامل صدر بننے کے بعد بھی ہر موقع اور موڑ پر آگے ہی رہے، اپنی قوم کو آگے لے جانے کی تدبیریں سوچتے اور ان پر عمل کی راہیں تراشتے رہے اور مسلسل اپنی قوم کو ترقی کی شاہراہ پر آگے ہی بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔
اقتدار کے اس طویل تجربے کے دوران رجب طیب ایردوآن نے محسوس کیا کہ پارلیمانی نظام کے مقابلے میں صدارتی نظام ترک ملت کے مسائل حل کرنے، ان کا معیار زندگی بلند کرنے، سماج کو مستحکم کرنے، سیاست و معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے اور دفاع و سلامتی کو نا قابل تسخیر بنانے کے لیے زیادہ مو ¿ثر ہے۔ مسلسل مشاورت اور اقوام عالم کے سیاسی نظاموں کے جائزے کے بعد وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ ترکی کو پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام میں ڈھالنا زیادہ مفید ہے۔ گزشتہ انتخابات کے دوران بھی ان کا یہ خیال تھا، تاہم انہیں اتنا وقت نہیں ملا کہ وہ اپنے اس خیال و نظریے کو عوام تک پہنچا کر رائے عامہ کو اس کے حق میں ہموار کر تے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ باوجود انہیں پچاس فیصد سے زائد ووٹ ملنے کے سیاسی نظام کو حسب منشا تبدیل کرنے کا اختیار نہیں مل سکا۔ ایردوآن عمل کے خوگر ہیں۔ وہ تھک کر نہیں بیٹھے۔ انہوں نے اپنی قوم کی بہتری کے لیے جو کچھ سوچا تھا، حسب منشا ووٹ نہ ملنے پر مایوس ہو کر اس سے دستبردار نہیں ہوئے، اس کی بجائے انہوں نے ترک ملت کو آگہی دینے کی راہ اپنائی۔ صدارتی انتخابات کے دوران کمالسٹ و لبرل اپوزیشن گروپوں اور عالمی میڈیا نے مسلسل اس بات کا پروپیگنڈا کیا کہ ایردوآن در اصل نظام کی تبدیلی سے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر مطلق العنان سلطان بننا چاہتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کا یقینا اتنا اثر ضرور ہوا کہ انہیں آئین بدلنے کے لیے مطلوبہ ووٹ نہیں مل سکے۔
صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد ایردوآن اور ان کی ٹیم نے یہ بات محسوس کی کہ عوام کو صدارتی نظام کے متعلق ایجوکیٹ کرنا اور اس نظام کی خوبیوں سے آگہی دینا بہت ضروری ہے، چنانچہ حکمران انصاف و ترقی پارٹی (آق) نے ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ صدارتی نظام کے متعلق شکوک و شبہات دور کرنے پر بھی بھرپور توجہ دی۔ یہ شکوک و شبہات ایردوآن کی سیاسی پیش قدمیوں سے خائف اور اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس اپوزیشن کی جانب سے پھیلائے گئے تھے اور مسلسل پھیلائے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس سلسلے میں بھرپور مہم چلائی گئی، جس کے نتیجے میں بالآخر جنوری میں پارلیمان نے ملک کا سیاسی نظام بدلنے کے لیے عوامی ریفرنڈم کے انعقاد کی منظوری دے دی۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کے لیے عوامی ریفرنڈم کروانے کے واسطے 16 اپریل کی تاریخ بھی مقرر کر دی گئی۔
ریفرنڈم کی تاریخ طے ہونے کے بعد مہم میں مزید تیزی آگئی۔ اس وقت ترکی میں سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج کو چھو رہا ہے۔ کمالسٹ گروپ ریفرنڈم کی راہ روکنے کا آخری حربہ آزمانے کے لیے آئینی عدالت چلا گیا ہے، جہاں سے اسے کسی کامیابی کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے۔ بر اعظم یورپ میں کنٹیم انٹرنیشنل پبلشنگ گروپ کے مطابق تقریباً ایک کروڑ ترک باشندے رہتے ہیں، جن کی بہت بڑی تعداد جرمنی، فرانس آسٹریا اور ہالینڈ میں مقیم ہے۔ ترک رہنماو ¿ں نے اپنے شہریوں کو کنوینس کرنے کے لیے ان ملکوں میں بھی مہم شروع کردی، جیسا کہ دنیا بھر میں یہ رواج موجود ہے، مگر آسٹریا نے ترک رہنماو ¿ں کے اس جائز سیاسی حق کی مخالفت کی، آسٹریا کے بعد جرمنی کی ایک ریاست نے ترک ریفرنڈم مہم پر پابندی لگادی اور اب ہالینڈ نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ترک خاتون وزیر محترمہ فاطمہ بتول قایا کو ایک سیاسی تقریب میں شرکت سے نہایت غیر معقول انداز میں روک کر انہیں مجرموں کی طرح سفارتخانے تک محدود رکھا، جبکہ اس سے قبل ترک وزیر خارجہ جناب مولود چاوش اوّلو کے طیارے کو بھی ایمسٹرڈیم ایئر پورٹ پر اترنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جس پر مرد آہن رجب طیب ایردوآن نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ہالینڈ کے ساتھ تمام روابط منقطع کرکے اسے اس کی اوقات یاد دلادی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر ترک رہنماو ¿ں کی مہم غلط ہے تو خود دو دن قبل ولندیزی رہنما اپنے ملک میں ہونے والے الیکشن کی مہم چلانے کے لیے برطانیہ اور یورپ کے دوسرے بڑے ملکوں میں کیوں گئے تھے؟ کیا ہالینڈ کا انتہا پسند نسل پرست رہنما گیرٹ وائلڈر لندن کی سڑکوں پر اپنی انتخابی مہم چلاتا ہوا نہیں پایا گیا؟ بہر حال ہالینڈ نے غیر ضروری اقدامات کے ذریعے اپنے باطن کا بغض اور حسد آشکار کردیا، جس سے ولندیزیوں کے خوشنما چہرے پر پڑا تعصب کا نقاب بھی اتر گیا ہے۔
ترکی کے ساتھ یورپ کی چپقلش اور کشمکش کا ایک تاریخی پس منظر ہے، آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے اس پس منظر سے الگ کرکے حالات کی پوری تصویر سامنے نہیں لائی جا سکتی۔ آئندہ انہی سطور میں کوشش کی جائے گی کہ موجودہ منظرنامے کو تاریخی پس منظر کے ساتھ واضح کیا جائے۔ہماری دعا ہے کہ ترکی اپنی سیاسی زندگی کے اس اہم مرحلے سے بھی بخیر و خوبی سرخرو ہو کر نکلے اور پہلے سے زیادہ ترقی اور استحکام اس کا مقدر ہو۔