ترکی میں نئے نظام کیلئےآئینی ترمیم کے بنیادی حقائق

0 3,054

ترک پارلیمنٹ سے صدارتی نظام کی منظوری کے بعد مختلف تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جن میں اردو میڈیا بھی پیش پیش ہے- ان میں اکثر حقائق سے خود اور اپنے قارئین کو پوشیدہ رکھ رہے ہیں- ہم یہاں ترک پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کی جانے والی آئینی ترمیم کی 18 شقوں کی خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔

مجلس قانون ساز:

پارلیمانی ممبران اسمبلی کی تعداد 550 سے 600 ہو جائے گی۔

ممبر پارلیمنٹ کے لئے امیدوار بننے کی عمر 25 سال سے 18 سال ہو جائے گی۔

صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہر 5 سال بعد ہوں گے۔

پارلیمنٹ کے قانون سازی، آئینی ترمیمات اور تنسیخی اختیارات جاری رہیں گے۔

پارلیمنٹ بدستور کسی بھی مسئلے پر بحث کرنے، پارلیمانی قرار دادیں پاس کرنے اور تحریک التواء کا اختیار رکھے گی۔

سپریم بورڈ آف ججز اینڈ پراسیکیوٹر:

4 ممبر صدر جبکہ 7 ممبر پارلیمنٹ منتخب کر سکے گی۔

محکمہ قانون کے انڈر سیکرٹری بورڈ کے مستقل ممبر ہوں گے۔

فوجی عدالتوں کا خاتمہ:

فوجی کمیشن اور فوجی عدالتوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔

آئینی کورٹ:

آئینی کورٹ کے ممبران کی تعداد 17 سے 15 کر دی جائے گی۔

صدارتی نظام:

صدر ریاست کا آئینی سربراہ ہو گا اور اس کے مطابق انتظامی اختیارات استعمال کر سکے گا۔

صدر اپنی جماعت سے تعلق نہیں توڑے گا۔

ایسا قانون ساز ممبر جس کی جماعت یا گروپ نے 5 فیصد ووٹ لئے ہوں یا انتخابات میں 100,000 ووٹ حاصل کیے ہوں، وہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہو گا۔

صدر مملکت، نائب صدور اور وزراء کا تقرر کر سکے گا۔

ایگزیکٹو اختیارات سے متعلق معاملات پر صدر کو احکامات جاری کرنے کا اختیار ہو گا۔

کوئی شخص دو سے زائد بار صدر منتخب نہیں ہو سکے گا۔

صدر مملکت کو اختیار ہو گا کہ وہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر سکیں،اس کی منظوری پارلیمان سے لینا ہوگی۔

صدر مملکت ملکی بجٹ ترتیب دیں گے اور منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں جمع کروائیں گے۔

اعلی عوامی عہدیدار صدر کی منطوری کے ساتھ مقرر کیے جا سکیں گے۔

صدر اور پارلیمنٹ دونوں کو نئے انتخابات کروانے کا اختیار ہو گا۔

کسی مشتبہ معاملہ میں پارلیمان واضح اکثریت کے ساتھ صدر کے خلاف کارروائی شروع کرنے کی تحقیقات کا اختیار رکھے گی۔

ترکی کے مستقبل کے لئے جوہری تبدیلی قرار دی جانے والے اس آئینی ترمیم پر شق وار بحث اور منظوری کے لیے علیحدہ علیحدہ پارلیمانی سیشن ہوئے اور دوسرے مرحلے میں پارلیمنٹ میں 345 ممبران پارلیمنٹ نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

یاد رہے کہ آئینی ترمیم کے مطابق صدارتی نظام پر ریفرنڈم کے لیے ممبران پارلیمنٹ کے 330 ووٹوں کی ضرورت تھی- اس آئینی ترمیم پر حکمران جماعت آق پارٹی کی حمایت اپوزیشن جماعت ملت پرست حرکت پارٹی نے بھی کی۔

اگر ترک پارلیمنٹ میں صدارتی نظام کے حق میں 367 ووٹ آ جاتے تو قانونی طور صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کی ضرورت بھی ختم ہو جاتی۔ تاہم اس کے باوجود صدر رجب طیب ایردوان نے ترمیمی بل پارلیمان میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ اگر بل کی حمایت میں 367 ووٹ بھی آ جائیں تب بھی وہ عوامی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم ضرور کروائییں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وہ عوامی رائے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اپنے اس فیصلے کے پس پردہ وجہ بیان کرتے ہوئے رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ عوامی رائے کے بغیر جو تبدیلی بھی آتی ہے وہ غیر مستقل اور ناپائیدار ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ آئینی ترمیم کی ترک پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد تین (3) ماہ کے اندر ریفرنڈم ضروری ہو گیا تھا جس وجہ سے 16 اپریل 2017ء کو الیکشن کمشن آف ترکی ریفرنڈم کا انعقاد کرے گا۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: