ترکی کے صدارتی نظام پر اعتراض کیوں؟ – عبید اللہ عابد
ہم ایک دلچسپ صورت حال دیکھ رہے ہیں۔ صدرطیب ایردوان کے ترکی میں موجود مخالفین مجوزہ صدارتی نظام کی اس قدرمخالفت نہیں کررہے جتنے باقی دنیا میں موجود بعض حلقے کررہے ہیں۔ گزشتہ ماہ رائے عامہ کے ایک جائزے سے ظاہر ہوا کہ ترک قوم کی اکثریت ترکی میں صدارتی نظام کی خواہاں ہے۔ Company A&G Research نے یکم نومبر2015 کے انتخابات سے قبل رائے عامہ کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ ظاہر کی تھی۔ آنے والے دنوں میں انتخابی نتائج نے بعینہ وہی نتائج فراہم کیے۔ یہ واحد ترک ادارہ تھا جس کے اندازے درست ثابت ہوئے۔ جنوری کے اواخر میں اے اینڈ جی ریسرچ کمپنی نے صدارتی نظام سے متعلق ترک قوم کی سوچ وفکر کا جائزہ لیا۔ معلوم ہوا کہ 53 فیصد ترک صدارتی نظام کے حق میں ہیں۔ ادارے کے سربراہ عادل غور(Adil Gür ) کے مطابق ترکی میں صدارتی نظام کی حمایت میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ جنوری ہی میں ترک پارلیمان میں بھی 550 کے ایوان میں 345 ارکان نے صدارتی نظام کے حق میں فیصلہ دیا۔ جس کے بعد صدرطیب ایردوان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:” آخری فیصلہ ترک عوام ہی کا ہوگا۔ ترک تاریخ میں ایک نیا دروازہ کھلا ہے،ہمارے لوگ ’ہاں‘ کا ووٹ ڈالیں گے تو یہ دروازہ مکمل طور پر کھل جائے گا“۔یاد رہے کہ آئینی ترمیم کے مطابق صدارتی نظام پر ریفرنڈم کے لیے ممبران پارلیمنٹ کے 330 ووٹوں کی ضرورت تھی۔ اپوزیشن جماعت قوم پرست ’ملی حرکت پارٹی‘ نے بھی اس آئینی ترمیم کی حمایت کی ۔
اگر ترک پارلیمان میں صدارتی نظام کے حق میں 367 ووٹ آ جاتے تو قانونی طور صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کی ضرورت بھی ختم ہو جاتی۔ یادرہے کہ صدر طیب ایردوان نے پارلیمان میں ترمیمی بل پیش ہونے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ بل کی حمایت میں 367 ووٹ بھی آ جائیں تب بھی وہ عوامی رائے لینے کے لیے ریفرنڈم ضرور کرائیں گے۔ان کے بقول:” وہ عوامی رائے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ عوامی رائے کے بغیر جو تبدیلی بھی آتی ہے وہ غیر مستقل اور ناپائیدار ہوتی ہے“۔ ترک پارلیمان سے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تین ماہ کے اندر ریفرنڈم منعقد ہوگا جس کے 16اپریل2017ءکی تاریخ طے کی گئی ہے۔
جناب طیب ایردوان کے مخالفین ان کے مجوزہ صدارتی نظام کے بارے میں تبصرے اور تجزیے کرتے ہوئے پرلے درجے کی بددیانتی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یقیناً انھیں اندازہ ہوگا کہ ان کی بددیانتی پڑھنے والوں پر ایک دن کُھل جائے گی۔ اس کے باوجود بددیانتی کا مظاہرہ کرتے چلے جانا حیران کن امر ہے۔ مغربی میڈیا اور دانشور بھی اس فکر میں دبلا ہوئے جارہاہے کہ طیب ایردوان سن 2029ءتک ترک صدر رہیں گے۔ گزشتہ 16برس سے وہ طیب ایردوان کی شکست کے خواب دیکھ رہے ہیں، اب اگلے 12برس بھی طیب ایردوان کو دیکھنا پڑے گا، یہ شکست خوردہ مغربیوں کے لئے ایک ڈراﺅنا خواب ہے۔ بڑے امریکی ادارے’ سی این این‘ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ طیب ایردوان ایک نئی طرح کا صدارتی نظام متعارف کرائیں گے۔ یہ نئی طرح کا صدارتی نظام کیا ہے، آئیے! اس کے ملخص کا جائزہ لیتے ہیں۔
جناب طیب ایردوان کے صدارتی نظام میں مجلس قانون ساز کے ارکان کی تعداد 550 سے 600 ہو جائے گی، رکن پارلیمان بننے کی عمر 25 سال سے 18 سال ہو جائے گی، صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہر 5 سال بعد ہوں گے۔ پارلیمان کے قانون سازی، آئین میں ترمیم کرنے اور کسی دفعہ کو آئین سے نکالنے کے اختیارات برقرار رہیں گے۔ پارلیمان کے پاس کسی بھی مسئلے پر بحث کرنے، پارلیمانی قرار دادیں پاس کرنے اور تحریک التواء کا اختیار برقرار رہے گا۔
سپریم بورڈ آف ججز اینڈ پراسیکیوٹر کے چار ارکان کا تقرر صدر مملکت جبکہ 7 ارکان کی تقرری پارلیمان کرے گی۔ محکمہ قانون کے انڈر سیکرٹری بورڈ کے مستقل ممبر ہوں گے۔ فوجی کمیشن اور فوجی عدالتوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا جبکہ آئینی عدالت کے ارکان کی تعداد 17 سے کم کرکے 15 کر دی جائے گی۔
صدر ریاست کا آئینی سربراہ ہو گا اور اس کے مطابق انتظامی اختیارات استعمال کر سکے گا۔ صدر اپنی جماعت سے تعلق نہیں توڑے گا۔ پارلیمان کا ایسا رکن جس کی جماعت یا گروپ نے 5 فیصد ووٹ لئے ہوں یا انتخابات میں 100,000 ووٹ حاصل کیے ہوں، وہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہو گا۔ صدر مملکت، نائب صدور اور وزراء کا تقرر کر سکے گا۔ ایگزیکٹو اختیارات سے متعلق معاملات پر صدر کو احکامات جاری کرنے کا اختیار ہو گا۔ کوئی شخص دو سے زائد بار صدر منتخب نہیں ہو سکے گا۔ صدر مملکت کو اختیار ہو گا کہ وہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر سکیں،اس کی منظوری پارلیمان سے لینا ہوگی۔ صدر مملکت ملکی بجٹ ترتیب دیں گے اور منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں جمع کرائیں گے۔ اعلی سرکاری عہدے دار صدر کی منطوری کے ساتھ مقرر کیے جا سکیں گے۔ صدر اور پارلیمنٹ دونوں کو نئے انتخابات کرانے کا اختیار ہو گا۔ کسی اختلافی معاملہ میں پارلیمان واضح اکثریت کے ساتھ صدر کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا اختیار رکھے گی۔
کیسی عجیب بات ہے کہ جس مغربی دنیا کے متعدد ممالک میں صدارتی نظام رائج ہیں، وہاں سے مجوزہ ترک صدارتی نظام کی مخالفت ہورہی ہے۔ مسلم دنیا میں ایسے لوگ مخالف ہیں جو سیکولرز اور لبرلز ہیں۔انھیں ترکی میں صدارتی نظام صرف اس لئے قبول نہیں کہ اس کے ذریعے ایک اسلام پسند رہنما ملک کی مکمل باگ ڈور سنبھالے گا۔ اگرطیب ایردوان شرابی اور زانی ہوتے، اسلام بے زار ہوتے تو ہمارے یہی سیکولر اور لبرل دوست ان کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیتے۔
بہت بنیادی سوال ہے کہ کیا جمہوریت میں صدارتی نظام نہیں ہوتا؟ دنیا کے قریباً 50 ممالک میںایسا صدارتی نظام رائج ہے کہ وہاں وزیراعظم کا عہدہ بھی نہیں ہوتا۔ اس میں امریکا بھی شامل ہے اور ایران بھی۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ممالک کی بڑی تعداد میں بھی مکمل صدارتی نظام ہے۔ جبکہ ڈیڑھ درجن ممالک ایسے ہیں جہاں وزیراعظم کا عہدہ نمائشی ہوتاہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں جیسے صدر نے اپنا سیکرٹری رکھا ہوا ہو۔
اگر جمہوریت میں صدارتی نظام بھی ہوتا ہے، اگر ستر ممالک میں صدارتی نظام موجود ہے تو پھر ترکی میں صدارتی نظام پر اعتراض کیوں؟؟؟
دنیا میں قریباً تمام مسائل اسی قسم کی منافقت کے پیدا کردہ ہیں۔ جمہوریت کے نتیجے میں سیکولرز برسراقتدار آئیں تو درست، اسلام پسندوں کو اقتدار مل جائے تو ایسی جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جائے۔ دیکھئے ! مصر جہاں اسی طبقہ نے فوجی جرنیلوں کے خلاف مل کر مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر اور ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، دیکھ لیجئے! تیونس میں اسلام پسندوں کی حکومت کے خلاف کس قدر سازشیں کی گئیں۔ دیکھ لیجئے! ترکی میں طیب ایردوان کی حکومتوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کیاگیا، ایک کے بعد دوسری بغاوت کے لئے خدمات اور حمایت پیش کی گئی۔ ایسے نہیں چلے گا صاب! بغاوت آپ کے ہاں ہوتو ہر باغی کو نہایت بے رحمی سے کچل دیاجائے لیکن بغاوت ترکی میں ہوتو باغیوں کے لئے نرمی کی درخواستیں۔دہشت گردی آپ کے ہاں تو دہشت گردی کرنے والوں پر کیمیائی بارش کردی جائے لیکن دہشت گردی ترکی میں ہوتو اس پر تالیاں بجائی جائیں بلکہ دہشت گردوں کی حمایت کی جائے، صدارتی نظام آپ کے ہاں جائز لیکن ترکی میں ناجائز۔ ایسے نہیں چلے گا صاب!