صدر ایردوان عثمانی خلافت کا احیا کررہے ہیں؟

3,208

گزشتہ دنوں صدر رجب طیب ایردوان نے العربیہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سیکولرازم پر اظہار خیال کیا اور اس خدشے کو رد کر دیا کہ ترکی میں صدارتی نظام کے بعد خلافت کے قیام کا راستہ کھل جائے گا۔ آپ اس سوال اور جواب کو ترکی کی موجود صورتحال سے علیحدہ کر کے سمجھنے کی کوشش کریں گے تو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔  

گزشتہ 14 برس میں ترکی میں جو کچھ ہوا ، اس کے نتیجے میں سیکولرازم کو دین ماننے والوں کا ایمان کمزور ہوا ہے۔ مشرق سے مغرب تک اور خود ترکی میں کمالسٹ حلقے اور سیکولر اشرافیہ ان اقدامات پر نالاں ہیں اور صدر ایردوان کو کسی بھی طریقے سے جلدازجلد ہٹانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں 15 جولائی کی ناکام بغاوت سب سے خطرناک کوشش تھی۔ دوسری طرف وقت کے ساتھ ساتھ اسلام پسند طبقات کا ترکی اور صدر ایردوان پر اعتماد بڑھا ہے حتی کہ سعادت پارٹی نے صدر ایردوان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، اس نے ناکام بغاوت میں جانی قربانیاں دی ہیں اور صدارتی نظام کے حق میں جاری مہم میں بھی ساتھ دے رہی ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ترک ملت کا اپنی تاریخ اور ماضی پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ "ینی عثمانلی” مطلب نیو عثمانیت کی چاہ اور آرزو لوگوں میں پیدا ہوئی ہے اور باقاعدہ ایک کلچر کی صورت میں ترک ثقافت میں اسے اپنایا گیا ہے۔ وہ خوشی سے عثمانی دور کی علامتوں، فینسی ملبوسات، عطر، جیولری، حمام، مختلف اشیاء اور روایات کو اپنی روز مرہ زندگی میں جگہ دے رہے ہیں۔ کاروباری حلقوں نے اسے مزید وسعت دیتے ہوئے ان اشیاء کو پیدا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں صرف اسلام پسند طبقہ ہی شامل نہیں بلکہ ترک سیکولرایلیٹ کلاس بھی پیچھے نہیں ہے۔ آپ عثمانی دور سے جڑے سینکڑوں فیس بک صفحات اور درجنوں ویب سائٹس دیکھ سکتے ہیں۔

یکم فروری 2017ءعثمانی سلطان عبدالجمید ثانی کی پوتی نلہان عثمان اوّلو نے ایک ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "میں صدر کو اکیلے نہیں چھوڑوں گی، جیسے سلطان عبد الحمید کو اکیلے چھوڑ دیا گیا۔ میرے اس فیصلے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس پارلیمانی نظام نے میری اقدار اور میرے لوگوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کیا عدنان مندریس اور اس کے ساتھی اسی پارلیمانی نظام کی وجہ سے تختہ دار پر نہیں چڑھائے گئے تھے؟ کیا اسی نظام کی وجہ سے ترگت اوزال چنکایہ محل میں نہیں جکڑے گئے تھے؟ جب انہیں زہر دیا گیا اس وقت کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ کیا صدر ایردوان کو ایک نظم پڑھنے پر سیاست سے علیحدہ نہیں کر دیا گیا تھا؟ امام خطیب اسکولوں کو بند کر دیا گیا اور ہماری بہنوں کے سروں سے حجاب کھینچ کر زمین پر پھینک دیئے جاتے رہے۔ یہ اس نظام کی وجہ سے تو تھا۔ کیا ایسی ہوتی ہے جمہوری ریاست؟ کلیچدار اوّلو نے کہا کہ ‘آپ کے لیے پارلیمانی نظام کیوں ناکافی ہے؟’ میں کہتی ہوں کافی ہو گیا، اب ہم صدارتی نظام کے لیے "ہاں” کہیں گے”۔
 

 
ان خیالات کے ردعمل میں کمالسٹ جمہوریت عوام پارٹی (سی ایچ پی) نے نہ صرف نلہان عثمان اوّلو کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا بلکہ آق پارٹی اور صدر ایردوان پربھی یہ الزام عائد کیا کہ وہ عثمانی خلافت کا احیاء کرنے والے ہیں۔ پارٹی سربراہ نے عثمانی ریاست کے خلاف بیانات دئیے اور اس الزام کو باقاعدہ ریفرنڈم مہم میں حصہ بنا لیا گیا۔ ترمیم اور صدارتی نظام کے نکات پر بات کیے بغیراسے سیکولرازم اور جمہوریت ختم کرنے والا نظام قراردیا۔ عوامی سطح پر اس صدارتی نظام کی "ہاں” اور”ناں” کو صدر ایردوان اور عظیم قائد مصطفےٰ کمال اتاترک کے درمیان براہ راست مقابلہ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ فیس بک سروے ملاحظہ کریں
 

 
س سروے میں صدارتی نظام میں "ناں” کہنے کا مطلب صدر ایردوان کے مقابلے میں مصطفے کمال اتاترک کی حمایت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ اسے 3لاکھ 95 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا ہے اور مصطفے کمال اتاترک کو 19 ہزار لوگوں نے ووٹ دئیے ہیں جبکہ صدر ایردوان کی 13 ہزار ترک شہریوں نے حمایت کی ہے۔ اس طرح کے سروے اور تصاویر آپ کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جابجا ملیں گی۔
 
آق پارٹی اور صدر رجب طیب ایردوان نہ تو عثمانی خلافت کا دوبارہ احیاء کر رہے ہیں اور نہ عثمانی خاندان کو اقتدار میں دوبارہ جگہ دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ سیاست، معیشت اور سماجی تحقیقات کی فاؤنڈیشن (سیٹا) کے زیر اہتمام ایوان صدارت میں منعقد ہونے والے صدارتی نظام پرسمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے واضع طور پر کہا: "ری پبلک کا اعلان ہماری جنگ آزادی کی فتح کا حاصل تھا جو ہم نے اپنے اختیار سے چن لیا۔ ہم نے شاہی گھرانے کو ملک سے علیحدہ کیا اور ری پبلک کا اعلان کیا” انہوں نے کہا” "جب ہم یورپی ممالک کو دیکھتے ہیں وہاں اکثر میں شاہ اور ملکہ موجود ہیں۔ ایسی ہی صورتحال ہم دوسری جگہوں پر بھی دیکھتے ہیں جیسے جاپان اور تھائی لینڈ۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں ‘یہ شہنشاہ صرف علامتی ہیں، اصل میں وہاں پارلیمانی جمہوریت ہے’۔ اگر کسی ریاست کے نظام حکومت میں ایک کردار موجود ہے وہ علامتی کبھی نہیں رہ سکتا، اگر کسی ملک میں کوئی بادشاہ ہے تو وہ بادشاہ ہے اور اگر کوئی ملکہ ہے تو وہ ملکہ ہے۔ کوئی شخص جو تاج پہنتا ہو اور تخت یا گدی پر بیٹھتا ہو تو اس ملک کی حکومت میں اس کا کردار واضع ہے۔”۔
 
صدر ایردوان نے سیکولرازم کے بارے میں خدشات کا جواب عرب ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں دیا اور اپنی تائید کا اعادہ کیا:”افراد سیکولر نہیں ہو سکتے۔ لیکن ریاست کا سیکولر ہونا ضروری ہے۔ سیکولرازم کا مطلب تمام عقائد کو برداشت کرنا ہے، ریاست تمام مذہبی معاملات میں غیرجانبدار ہوتی ہے اور تمام مذاہب اور عقائد سے برابر فاصلہ رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ کیا یہ غیر اسلامی ہے؟ کیا یہ اسلام سے متصادم ہے؟ کچھ لوگ ہیں جو اس کی نئی تشریح کر رہے ہیں اور نئے تصورات پیش کر رہے ہیں۔ ہمیشہ سیکولرازم کو مذہب مخالف سمجھا جاتا ہے، سیکولرازم کو الحاد کے ہم پلہ بنا دیا گیا۔ ہم کہتے ہیں "نہیں”، سیکولرازم کا مطلب ہے کہ ریاست کسی ایک کو دوسرے پر برتری دئیے بغیر تمام گروہوں کو آزادی کی ضمانت دے۔ یہ وہ سیکولر ازم ہے جو ہم سمجھ پائے ہیں”۔
 

یہی صدر ایردوان اور آق پارٹی کی پالیسی ہے جس کی بنیاد پر وہ آج یہاں تک پہنچے ہیں اور ملک و معاشرے کو ایک بڑی تبدیلی سے گزارا ہے۔ اس پالیسی میں انہوں نے بہت سی ممنوعات کو اختیار کیا ہے لیکن وقت آنے پر انہیں چھوڑتے چلے گئے ہیں اس لیے ہم کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز فیصلہ کن نہیں ہوتی۔ سیاست میں پالیسیاں بنتی، ٹوٹتی اور تبدیلی سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہاں یہ بحث بھی ضروری ہو گئی کہ اس پالیسی میں سیکولرازم کی جو حدود متعین کی گئی ہیں وہ سیکولرازم کو اپنا دین کہنے والوں کو کس حد تک قبول ہیں جس میں صدر صرف صدر نہیں خود کو مسلمان صدر کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور عوامی امنگوں کےمطابق اسلامی تہذیب و ثقافت کی ترویج و احیاء کے لیے اقدامات کرتا ہے۔
 

ہم آپ کو صدر ایردوان کی وہ بات بھی یاد دلاتے ہیں جو انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہی تھی: "پاکستان نے (اسلامی) اقدار کے تحفظ کے ساتھ جمہوریت کو چلانے کا ایک عملی مظاہرہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اسلامی ممالک کے لیے ایک نمونہ ہے۔ میں اس احسن کامیابی پر آپ سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں”۔
 

 
صدر ایردوان نے پاکستان کے اسلامی جمہوری نظام کو باقی اسلامی ممالک کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ اسی خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ اسلام باقی تمام مذاہب سے اعلیٰ ترین دین ہے۔
انہوں نے حال ہی میں جرمن چانسلر کو دوران پریس کانفرنس ٹوک کر کہا تھا کہ وہ ایک مسلمان صدر ہیں اور اسلام کا تحفظ کریں گے۔ انہوں نے انجیلا مرکل کو "اسلام پسند دہشتگردی” کی اصطلاح سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ اسلام کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام کو دہشتگردی سے نتھی کرنا اسلام قبول کرنے والے، اسلام کو پسند کرنے والے مسلمانوں کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا۔
 

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: