صدر طیب ایردوان دیار بکر میں – ابراہیم قالن
صدر رجب طیب ایردوان کا ہفتے کے روز دیاربکر کا دورہ اپنے اندر امکانات اور چیلنجز سے بھری ان کی سیاسی تاریخ کے بیک گرائونڈ کے تناظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کا کردوں کو گلے لگانا اور یہ اعلان کرنا کہ وہ ترک ریپبلک کے مساوی کے شہری ہیں سولہ اپریل کے ریفرینڈم کے حوالہ سے اہم نتائج کا متضمن ہے ۔
2005 میں دیار بکر کے پہلے دورے سے لے کر اب تک صدر ایردوان بہت سارے ایسے اقدامات کرچکے ہیں جن کی نظیر ترکی کی جدید تاریخ میں کوئی دوسرا سیاستدان پیش نہیں کرسکتا۔وہ ببانگ دہل یہ کہتا ہے کہ کرد ترکش قوم کا ایک اہم اور برابر کا جز ہے اور وہ کردش عوام اور PKK کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ چکا ہے ۔وہ کردش زبان پر سے میڈیا ، سیاسی سرگرمیوں اور دیگر فورمز میں پابندیاں اٹھانے کیلئے بے لاگ اقدامات اٹھاچکے ہیں ۔ بطور وزیر اعظم وہ کرد قصبوں، دیہاتوں اور شہروں کو ترقی دینے کیلئے کروڑوں ڈالر انویسٹ کرچکے ہیں تاکہ کردوں کا معیار زندگی بلند ہو۔ انہوں نے PKK دہشت گردوں کے متبادل کے طور پر کرد عوام کے سامنے بیلٹ باکس اور پارلیمنٹ رکھ دیا ہے ۔کردوں کو برابر کا شہری سمجھتے ہوئے گلے لگانا طیب ایردوان کی سیاست کا اہم اور بنیادی جز ہے ۔
دیاربکر میں خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم ہر اس شخص کے ساتھ چلنے اور بات کرنے کیلئے تیار ہیں جس کے پاس کہنے کیلئے کچھ ہے اور جس کے پاس کرنے کیلئے کچھ ہے ، ہماری واحد شرط یہ ہے کہ وہ بندوق نیچے رکھیں گے اور قوم و ملک کو تقسیم کرنے کی بات نہیں کریں گے ۔”
2015 میں, جب سے PKK یک طرفہ طور پر امن مذاکرات اور پیس پراسیس سے الگ ہوچکی ہے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سیاسی پوٹینشل کے طور پر اپنا کردار ضائع کرچکی ہے ، صدر متواتر یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ اب خود کرد عوام کے پاس جاکر ان سے ملیں گے ، عام آدمی سے بزنس مینوں سے ، سیاسی فگرز سے این جی اوز سے اور دیگر بااثر افراد سے بات کریں گے تاکہ ان کے مسائل حل کیئے جاسکیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ کردوں کو PKK کے دہشت گردوں اور ان کے لینن و مارکسی نظریات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ PKK کو امریکا اور یورپی یونین دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے ۔ ان کی بے رحمی اور دہشت گردی کا شکار صرف ترکی ریاست نہیں ہوئی بلکہ خود وہ کرد بھی ہوئے ہیں جنہوں نے ان کے نظریات ماننے سے انکار کیا ۔HDP خود کشی کا ارتکاب کربیٹھی جب اس نے 2014 کا لوکل الیکشن جیتنے کے بعد PKK کی”خندقی سیاست ” کی حمایت کردی اور اپنا بجٹ، وسائل اور میونسپلٹی کا عملہ ان کی خدمت پر مامور کردیا ۔ ان کے اقدامات نہ صرف یہ کہ غیر قانونی تھے بلکہ ان کی سیاسی وجود کے جواز کیلئے بھی تباہ کن تھے، اس سے کرد باشندوں کی اکثریت نہ صرف PKK بلکہ خود ان کے سحر سے بھی نکل آئی ۔اب کرد عوام امن چاہتے ہیں سیکورٹی چاہتے ہیں اور ان کے جبر کے مخالف ہیں ۔
یہی وہ چیز ہے جس کا صدر نے دیار بکر میں وعدہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا” جس طرح ہم استنبول ، ازمیر، طربزون، انطالیہ ، ایرزوروم کے بغیر ترک ریاست کا تصور نہیں کرسکتے ، اسی طرح ہم دیاربکر کے بغیر بھی ترک ریاست کا تصور نہیں کرسکتے ۔انہوں نے کہا کہ ترکی جس طرح ترکوں، عربوں کا ملک ہے اسی طرح کردوں کا بھی ہے ۔انہوں نے یہ بات صاف کردی کہ جب تک دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری رہے گا اس اثنا بھی کرد شہریوں کے حقوق معطل نہیں کیئے جائیں گے بلکہ ان کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی ، جب سے 15جولائی کی بغاوت کی کوشش کے بعد ملک کو اسٹیٹ آف ایمرجنسی ڈیکلیئر کردیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ریفارمز کا عمل روکا نہیں گیا ہے جس کا فائدہ کردوں کو ہورہا ہے ۔حکومت جس طرح دیگر جگہوں میں انویسٹمنٹ کررہی ہے اسی طرح دیار بکر کی سور ضلع کی تعمیر پر بھی کروڑوں ڈالر خرچ کررہی ہے تاکہ PKK کے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کا ازالہ ہوسکے ۔
صدر ایردوان نے PKK کی گندی سیاست کی مذمت کی کہ وہ کس منہ سے امن کی بات کرتے ہیں جب کہ انہوں نے ہاتھوں میں بندوق پکڑی ہوئی ہے ۔انہوں نے ایچ ڈی پی کا یہ دعوی بھی رد کردیا کہ وہ کردوں کی آواز ہےحالانکہ وہ پہلے PKK کے حق میں آواز بلند کرتی ہے ۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جب سے صدر ایردوان نے امن پراسیس شروع کیا ہے ایچ پی ڈی کسی بھی موقع پر PKKکے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکی نہ ان کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکی.
کوئی حکومت کسی ایسے سیاسی گروہ سے بات چیت قبول نہیں کرسکتی جو کسی مسلح گروہ کی کوشوشوں کو جواز دینے کی خواہاں ہو جس طرح کہ یہ PKKکے حق میں کررہی ہے جبکہ دوسری طرف جمہوری اور پارلیمانی سیاست کی مراعات سے بھی حظ اٹھا رہی ہے.یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح کہ شمالی آئرلینڈ میں IRA,سپین میںETA،اور کولمبیا میں FARC کر رہی ہے کہ ایک طرف مسلح مزاحمت بھی جاری ہے اور دوسری طرف سیاسی بات چیت اور امن مذاکرات کو قبول کرنے کی بات بھی کرتے ہیں.
کردوں کو PKKسے بچانے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ان کے حقوق کا احساس کرتے ہوئے ان کا معیار زندگی بلند کیا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ انہیں PKKکے وائلینس اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے بھی محفوظ رکھا جائے.
دیار بکر، حکاری، شرناک اور دیگر کرد شہروں کی آبادی یہ کہہ رہی ہے کہ وہ PKKکے دہشت گردوں کے خلاف حکومت کی موجودہ سیکوریٹی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ انہیں ہموار زندگی اور خوشگوار مستقبل کی امید دلاتے ہیں.
جو یورپین حکومتیں PKKکے مختلف عناصر کو اپنے ملکوں میں سہولتیں فراہم کر رہے ہیں تاکہ انہیں ترکی کے خلاف استعمال کیا جاسکے، وہ نہ صرف اپنے ہی اصول پامال کر رہی ہیں بلکہ خود کو شکست دینے کی پالیسی پر بھی گامزن ہیں. امریکی انتظامیہ بھی شام کے اندر یہی غلطی کر رہی ہے جب وہ PKKکے شامی برانچ YPG،PYD کو سپورٹ کرتی ہے اس عنوان سے کہ یہ تنظیمیں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ PKKشام کی جنگ کو اپنے علاقائی عزائم کیلئے استعمال کر رہی ہے. PKKکے مختلف شاخوں کو یورپ اور شام میں سپورٹ کرنا علاقے کی سالمیت اور امن کیلئے سنگین نتائج کا سبب بنے گا.
اسی کے ساتھ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کرد آبادی کی اکثریت یہ بات سوچ کر تنگ آچکی ہے کہ انہیں خود اپنے ہی ملک کے خلاف پیادوں کی طرح غیرملکی اشاروں پر استعمال کیا جارہا ہے .وہ اس بات سے بھی اکتا چکی ہے کہ مغربی میڈیا PKK اورHDPکی باتوں کو تو سیئریس لے کر شائع کرتی ہے مگر ان دونوں کے خلاف کسی آواز کو اہمیت نہیں دیتی.وہ کردوں کے لیننی اور مارکسی امیج کو رد کرتے ہیں جو مغربی گماشتوں کے ہاتھ میں ایک نظریاتی آلے کی طرح ہے اور جسے وہ پراکسی وار کیلئے استعمال کرتے ہیں حالات کا تقاضا یہ ہے کہ کرد عوام آئینی ریفرینڈم کی حمایت میں اندازوں سے بڑھ کر حصہ لیں اور اپنی رائے دیں ۔یہ قدرت کا عطا کردہ ایک موقع ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ مجوزہ سسٹم کے فوائد کیا ہیں اور یہ کس طرح کمزورکولیشن حکومتوں کا رواج ختم کردے گا،
یہ معیشت کو بڑھاوا اور استحکام بخشے گا اورچیک اینڈ بیلنس کا بہتر نظام لے آئے گا۔
صدر ایردوان کا کردوں کو گلے لگاتے ہوئے یہ اعلان کہ وہ جمہوریہ کے برابر کے شہری ہیں ان کی 2003 سے شروع کردہ پالیسی کو ممیز کرتی ہے اور اس کی اہمیت اور افادیت نہ صرف سولہ اپریل کے ریفرینڈم کیلئے ہے بلکہ اس کے بعدکیلئے بھی ہے.
مصدر. روزنامہ صباح استنبول
مترجم:وہاپ اغلو