میری دادی کا زخمی کان، پاک ترک بھائی چارے کی چھوٹی سی قیمت تھی، پاکستانی قونصل جنرل

0 1,223

‘ میری دادی کا زخمی کان پاکستان اور ترکی کا بھائی چارے کی خاطر ادا کرنے کے لئے ایک چھوٹی سی قیمت ہے”یہ بات پاکستانی قونصل جنرل انقرہ یوسف جنید نے ترک اخبار ساتھ ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

ترک اخبار کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستانی قونصل جنرل یوسف جنید نے کہا کہ ترکی اورپاکستان دوستوں سے بڑھ کر ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور انہوں نے کہا کہ ترکی میرے لیے ایسا ہی گھر ہے جیسا کہ پاکستان۔

جنید، تقریبا آٹھ سال سے ترکی میں ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور تاریخی روابط کو مزید مضبوط بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے دونوں ممالک کے گہرے تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے جذبات سے بھرپور ایک کہانی سنائی ۔ "میں جب ایک چھوٹا بچہ تھا ، شاید سات یا آٹھ سال کا تھا، اور میری دادی زندہ تھیں، ایک دن میں انکی گود میں تھا اور میں نے ان کے دائیں کان میں ایک بہت بڑا زخم دیکھا. ایسے جیسے کان کی جلد کو دو ٹکڑوں میں کاٹا گیا تھا اور یہ سلی ہوئی نہیں تھی. میں نے اس سے پوچھا دادی امی یہ کیا ہے ؟ دادی جان خاموش رہیں لیکن جب میرا اصرار بڑھنے لگا تو یوں گو یا ہویئں ۔ "جب میری جوانی کے دن تھے تو تب ترکی اور باقی دنیا کے درمیان ایک شدید جنگ جاری تھی، برِصغیر کے مسلمانوں (موجودہ پاکستان) نے اپنے ترک بھائیوں کی مدد کے لیے مہم کاآغاز کیا تاکہ ترک اس پیسہ سے ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر سامانِ جنگ خرید سکیں ۔ اس مہم میں لوگ گلی محلوں میں سفید چادریں لے کر پیسے اور زیورات اکٹھے کر رہے تھے ، ایسا ہی ایک جلوس میرے آبائی گھر کے پاس سے بھی گذرا ۔ میں اپنی سونے کی بالیاں اپنے مظلوم ترک بھائیوں کی مدد کے لیے دینا چاہتی تھی ۔ لیکن مجھے بالیاں پہنے ہوئے چار پانچ برس ہو چکے تھے اور بالیاں میرے کان میں مکمل طور پر پھنس چکی تھیں اور اتارنے پر اتر نہیں رہی تھیں” میری دادی ایک لمبی سانس لینے کے بعد دوبارہ گویا ہوئیں۔ "اس ہنگامی صورتِ حال میں جب میری بالیاں میرے کان سے اتر نہیں رہی تھیں تو میں نے انہیں نوچ لیا جس سے میرا کان شدید زخمی ہوا اور خون بہنے لگا، لیکن خدا کا شکر تھا کہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے جو کر سکتی تھی وہ کر چکی تھی۔

میں نے حیرت سے اپنی دادی کی طرف دیکھا اور ان سے پوچھا : کیوں، آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ دادی کی نم آنکھوں کے ساتھ چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انہوں نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو تمہیں اسلامی بھائی چارہ کی قدر خود بخود معلوم ہو جائے گی’ اور مجھے ان کی یہ بات تب تک سمجھ نہ آسکی جب تک میں خود ترکی آ نہیں گیا۔

جنید نے کہا کہ ہمیشہ مشکل حالات میں ترکی اور پاکستان نے ایک دوسرے کی بہت مدد کی اور ہمارے اس تاریخی تعلق کا اظہار ہمشہ اعلیٰ سطح کے دوروں میں بھی کیا گیا ہے۔ جنید نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جن دنوں میرا ترکی آنا ہوا تو پاکستان شدید سیلاب کی زد میں تھا اور ترکی نے اس موقع پر سب سے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی ۔ انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک بوڑھا شخص جسکی عمر قریباََ ستر سال تھی وہ قونصل خانہ آیا اور اس نے سیلاب زدگان کے لیے رقم عطیہ دینا چاہی، میں نے بزرگ سے کہا کہ ہم بالواسطہ یہاں رقم نہیں لیتے آپ اسے بینک مین جمع کروائیں ، لیکن وہ بضد تھا کہ میں بوڑھا شخص ہوں اور میرے لیے بینک جانا ممکن نہیں ہے۔ میں نے بزرگ کو اپنے دفتر میں بٹھایا اور اردلی کو بھیجا کہ یہ رقم بینک میں جمع کروا آئے ۔ میں نے بزرگ کے لیے ایک کپ چائے منگوائی اور ان سے ان کے کاروبار کے متعلق پوچھنے لگا بزرگ نے بتایا کہ وہ ریاضی کے ایک ریٹائرڈ استاد ہیں، میں نے پوچھا کہ کیا یہ رقم آپ اپنی بچت سے عطیہ کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، دراصل یہ میری پنشن کی رقم ہےجو مجھے ہر ماہ ملتی ہے۔ میں نے اس ماہ کی پنشن جب عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا تو میں اپنے پڑوسیوں کے پاس گیا کہ اگر میں یہ رقم پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لیے عطیہ کر دوں تو کیا وہ مجھے ایک ماہ کے لیے کھانا کھلا سکتے ہیں؟ تو سب نے کہا کہ ہاں وہ مجھے کھانا دیں گے اور میں یہ رقم لے کر یہاں چلا آیا ” پاکستان کی خاطر اپنے پڑوسیوں سے بھیک مانگنے کا یہ واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو مجھے اپنی دادی کے زخمی کان کی قربانی کی سمجھ آگئی۔

یہ دونوں واقعات گو کہ وقت اور جگہ کے اعتبار سے مختلف ادوار میں پیش آئے لیکن یہ ہمارے تاریخی تعلق کا ایک منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ پاکستان اور ترکی بین الاقوامی امور پر ایک انتہائی معاون نقطہ نظر اپنائے ہوئے ہیں.

ترکی اور پاکستان کی اعلی سطحی تعاون کونسل کو 2009 ء میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے بعد ترکی اور پاکستان کے اعلی سطحی سٹریٹیجک تعاون کونسل نے کم از کم 51 معاہدوں اور دستاویزات پر دستخط کیے ہیں اور دونوں ممالک کونسل کے قیام کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف سیاسی، فوجی اور انٹیلی جنس کوآرڈینیشن بڑھانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ترکی میں بغاوت کی کوشش کی جارہی تھی تو اس کی خبر جب پاکستان کے ایک صوبہ کہ وزیرِ اعلیٰ کو ملی جو کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی ہیں اور [پاکستانی] وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی ہیں تو اس وقت رات کے 2 بج رہے تھے. رات 2 بجے سے صبح 8 بجے تک وہ منٹ ٹو منٹ کی بنیاد پر میرے ساتھ رابطے میں رہے اور صبح جب سب کچھ کنٹرول میں تھا تو اس کے بعد ہی انہوں نے کہا کہ، ” اب آپ سونے کے لئے جا سکتے ہیں ” ان کی یہ فکر مندی پاکستانیوں کے لئے ترکی کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔

جنید نے مزید کہا کہ ترکی میں ہونے والی بغاوت میں ایک دہشتگرد تنظیم FETO کا ہاتھ ہے اور پاکستان نے ترکی کیا س معاملے میں غیر مشروط حمایت کی ہے اور آئیندہ بھی یہ حمایت جاری رکھے گا ۔ پاکستان نے ناکام بغاوت کے بعد سے پاکستان میں موجود FETO کے تمام سکولولز کو ترک حکومت کے ادارے معارف فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا گیا ہے

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: