پاکستان انسداد دہشتگردی میں ترکی کی مدد کے حصول کا خواہاں
پاکستان ترکی کی جدید ٹیکنالوجی برتری سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فائدہ اٹھانا چاہتا ہے یہ بات پاکستان کے سربراہ برائے انسداد دہشتگردی (نیکٹا) نے جمعہ کے دن خبر رساں ایجنسی اناطالیہ سے بات کرتے ہوئے کہی۔
"دہشتگردی کے خلا جنگ میں ہم ترکی کا مزید بہتر نوعیت کا تعاون اور مدد چاہتے ہیں کیوں کہ دونوں اتحادیوں کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے ایک جیسی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے” یہ کہنا تھا احسان غنی جو کہ ادارہ برائے قومی انسداد دہشتگردی اتھارٹی(نیکٹا) سربراہ ہیں۔ جب انہوں نے اناطالیہ ایجنسی کو انٹرویو دیا۔
نیکٹا کا قیام 2013 میں اس وقت عمل میں آیا جب یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ دہشت گردوں کی نگرانی کی جائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آپس میں بہتر تعاون کے تحت دیگر غیر ملکی انسداد دہشتگردی اداروں کے ساتھ یکسوئی پیدا کر سکیں۔
انہوں نے کہا، "پاکستان اس حوالے سے ترکی کی ٹیکنالوجیکل برتری سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور اسی طرح ترکی اس معاملے میں ہمارے وسیع تجربے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم سے مستفید ہو سکتا ہے”۔ انہوں نے کہا، ترکی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے اور اسی طرح پاکستان نے بھی دونوں اقوام کی درمیان تعاون اور اتحادی مراسم نہ صرف دونوں برادران ممالک کو باہمی فائدہ دیں گے بلکہ دہشت گردی کے خلاف محاذ میں باہمی کامیابی ملے گی”۔
ترکی کو متعدد اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے خطرات لاحق ہیں جن میں داعش، پی کے کے، فیتو دہشت گرد تنظیم اور بائیں بازو کی انقلابی پیپل لبریشن فرنٹ پارٹی شامل ہیں – وہ داعش، پی کے کے اور شام میں پی وائی ڈی سے لڑ رہے ہیں۔ جبکہ پاکستانی فوج 2014 سے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف آزاد علاقہ جات میں جنگ لڑ رہے ہیں۔
غنی پیشے کے لحاظ سے ایک پولیس آفیسر ہیں ان کا کہنا تھا، "دہشت گردی اب ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے ایک عالمی متحدہ پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متحدہ طور پر کوششیں کی جا سکیں”۔ پاکستان میں شدت پسند گروہ اہل تشیع اور سنی مسلمانوں کو دونوں طرف سے شام میں لڑنے کے لئے بھرتی کر رہے ہیں گو کہ اس ضمن میں تعداد بہت کم ہے۔
پاکستان کی تیاری
"یہ اس لیئے خطرناک صورتحال نہیں یے کیونکہ شام میں ان میں سے کوئی گروہ بھی اس پوزیشن میں نہیں یے کہ اپنے گروہ کے لیئے جنگ کا پاسا پلٹ سکے انہوں نے یہ بات اناطالیہ ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ”دہشت گردوں کی تعداد سو سے بھی کم ہے جو بھرتی کیے گئے ہیں” البتہ پاکستان کے خفیہ ادارے اور محکمہ پولیس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ شام میں جنگجوؤں کا انخلا ہو رہا ہے۔ ہم نے اس ضمن میں کام شروع کر دیا ہے۔ ہمارے پاس انفارمیشن ہونی چاہئے تاکہ ہم ان کو جانے سے روک سکیں۔
پچھلے سال اگست میں پاکستانی اخبار ڈان نیوز نے حساس اداروں کی توجہ اس بات پر مبزول کرائی تھی کہ لگ بھگ کوئی 650 پاکستانی شام عراق یمن افغانستان اور وسطٰی ایشیا میں لڑ رہے ہیں۔
غنی کا کہنا تھا "پاکستانی اتھارٹیز ان جنگجوؤں سے نمٹنے اور ان سے منسلک خطرات سے بخوبی واقف ہیں اور ان میں سے کچھ دہشت گرد شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں سے واپسی پر گرفتار ہو چکے ہیں۔ نیکٹا کے پاس 64 کالعدم دہشت گردوں کی فہرست موجود ہے جن میں سے حال ہی میں انصار الحسن کا نام 30 دسمبر کو پچھلے سال شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا "باوجود اس کے کہ صورتحال بہت خطرناک نہیں ہے ہم اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں”
غنی نیکٹا سربراہی سے قبل قومی پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں – انہوں نے یہ بات دیگر حکومتی اور عسکری حکام سے مختلف رائے کا اظہار کرتے ہوئے کیا کہ داعش کی موجودگی نہیں ہے نہ ہی پاکستان کو داعش سے کوئی خطرہ لاحق ہے۔ ” داعش یا آئی ایس آئی ایس کا ایجنڈا یہاں پائے جانے والے تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کو کشش نہیں دیتا جو کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر لڑتے ہیں – غنی کا یہ دعویٰ تھا کہ پاکستان نے کامیابی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور واحد ملک ہے جس نے اپنے خطے سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کر دیا ہے۔