کل کا حماہ اور آج کے حماہ – طحہٰ کلینچ

0 2,228

یہ 35 سال قبل کی بات ہے کہ یہی دن تھے جب شامی شہرحماہ پر بارود کی بارش ہو رہی تھی۔ فائیٹر جیٹ طیارے فضاء سے شہر پر بم برسا رہے تھے۔ جبکہ تباہ شدہ عمارتوں اور تنگ گلیوں سے ٹینک اس پرانے شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ 27 دنوں کے محاصرے نے 38000 انسانوں کی جانیں لے کر تاریخ کو ایک ناقابل فراموش سانحہ دیا تھا۔ اپوزیشن   جماعت اخوان المسلمون کی بغاوت اور شہریوں کی طرف سے ان کی حمایت اس سانحے کی تاریخ میں رقم کی جانے والی وجہ بنی تھی۔ 

سن 2012ء میں انٹرنیشنل ایمنسٹی تنظیم نے حماہ قتل عام میں چند بچ جانے والے لوگوں کا انٹرویو کیا اور اس کی تفصیلی رپورٹ جاری کی۔ 

مايا موسىٰ جن کے خیالات اس رپورٹ کا حصہ تھے انہوں نے اس بربریت کی گواہی دی وہ 2فروری 1982ء کی رات آنے والی قیامت صغریٰ کی عینی شاہد تھیں۔ مایا نے کہا "محاصرے کے دوران میرے دادا کی بڑی عمر کی وجہ سے طبعی موت واقع ہو گئی، ہم اپنے گھر میں محصور ہو چکے تھے، ہم نے سوچنا شروع کیا کہ دادا جی کو کیسے دفن کیا جائے۔ جب ہم نے یہ صورت حال گلی کی نکڑ پر کھڑے فوجی اہلکار سے کی تو اس نے کہا میت کو اپنے دروازے کے سامنے رکھ دو۔ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا کیونکہ امکان تھا کہ گلی میں موجود کتے ان کی لاش کی بے حرمتی کر دیتے”۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی ہفتوں بعد میت کو دفنانے میں کامیاب ہو سکے تھے۔ مایا موسیٰ جو حماہ چھوڑ کر لندن میں رہتی ہیں ان کے چچا کو گرفتار کیا گیا اور جیل میں تشدد کر کے مار دیا گیا۔ مایا کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔

ایک اور گواہ عبد الحانی ریروانی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ محاصرے کے دوران صرف دو بار گھر سے باہر نکل سکے تھے۔ پہلی دفعہ جب گھر کی ایک حاملہ خاتون بمباری کے دھویں سے انتقال کر گئیں جبکہ دوسری بار جب پوری گلی میں لاشوں کا انبار لگ گیا تھا۔ عبدالحانی کے بیان کے مطابق محاصرے کے تیسرے ہفتے کے اختتام پر تمام زندہ شہریوں کو اعلان کر کے بلایا گیا تھا کہ زندگی رہنا ہے تو سٹی اسکوائر میں جا کر رجیم کے حق میں مظاہرہ کرو۔ جو مقررہ وقت تک اپنے گھروں سے نہ نکلے انہیں اسی وقت گھروں سے نکال کر ایک ایک کر کے گولیاں مار دی گئیں۔

سالہا سال تک شامی لوگ سانحہِ حماہ کا نام لیتے ہوئے ڈرتے تھے۔ وہ اسے ایک "واقعہ” کے لفظوں سے یاد کرتے تھے۔ وہ اپنی باتوں میں فقط اتنا کہہ پاتے تھے کہ "ہم نے اسے اس واقعہ میں کھو دیا”، "وہ اُس واقعہ میں مر گیا تھا”، "اس واقعہ سے قبل ۔۔۔” وغیرہ وغیرہ

جب میں 2001ء میں پہلی بار شام گیا تو انہوں نے مجھے ایک بزرگ سے ملوایا جو اس سانحے میں زندہ بچ گئے تھے اوردمشق میں رہ رہے تھے۔ مجھے یہ احمقانہ امید ہوئی کہ میں اس کی یاداشت سے اس سانحے کے بارے بہت کچھ سن سکوں گا۔ لیکن وہ تو کسی اور دنیا میں گم سم تھے، وہ عام لوگوں سے بات کرتے ہوئے بھی احتیاط کرتے تھے میں نے انہیں گواہی کے لیے بہت کریدا لیکن بہت کم سن سکا۔

 

مجزرة حماه - Hama Massacre


سن 1982ء میں حماہ میں ہونے والی بربریت اور ظلم یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ شامی رجیم کس قماش طبقے پر مشتمل ہے اور یہ بھی بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی بغاوت پر کیسا ردعمل دیتے ہیں۔ حماہ میں بیتنے والی سچی کہانی سالوں سے لوگوں کو بھول نہیں پائی بالکل اسی طرح حلب میں گرنے والی قیامت بھی بھول نہیں پائے گی۔ بدقسمتی سے حلب میں جو کچھ ہوا وہ نیا نہیں تھا۔ جو تاریخ اور جغرافیےکا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاریخ نے خود کو دوہرایا ہے۔

سانحہ حماہ سے ہی ایران اور شامی رجیم کے گہرے اور کثیر جہتی تعلقات آشکار ہوئے تھے۔ ایران-عراق جنگ (1980-1988) میں دمشق، تہران کا ساتھ دے رہا تھا۔ اسی لیے ایرانی حکومت نے سانحہ حماء پر آنکھیں موند لیں۔ اور جب اس سانحے مکمل تفصیل بھی سامنے آ گئی تب بھی ایران نے اس کی مذمت کی جرات نہ کی بلکہ حافظ الاسد کے ساتھ ان کے تعلقات مزید گہرے ہوگئے یہ نہ صرف ایرانی ریاست کا اصل چہرہ تھا بلکہ ان کا وہ رویہ بھی جو شام میں وہ دکھا رہےتھے۔ اسی لیے 2011ء کی پیش رفت کے ساتھ ایران نے ویسے ہی رویہ دکھایا جو اس سے قبل وہ 1982ء میں دکھا چکا تھا۔ بلکہ حقیقت میں اس نے اس سے بہت کچھ زیادہ کر دکھایا حتی کہ اپنے فوجی اور پرائیویٹ ملیشیاء بھی شام میں بھیج دی۔

سانحہ حماہ کے دوسرے حقائق یہ ہیں جو شامی سنیوں اور نصیری رجیم کے تعلقات کی گہرائی بتاتے ہیں۔ وزیر دفاع مصطفیٰ طلاس جو حماہ پر ہونے والی بمباری کی قیادت کر رہےتھے، حومس شہر سے تعلق رکھنے والے ایک سنی تھے۔ جبکہ سینکڑوں سنی فوجی حماء کے محاصرے میں شامل تھے۔ سنی اسکالر سعید رمضان البوطی بھی اخوان المسلمون کے خلاف رجیم کا ساتھ دے رہے تھےاس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کہ مستقبل میں بغاوت کی صورت سنی عناصر رجیم کا ساتھ دیں اور تب بھی یہ تعجب نہ تھا جب انہوں نے ساتھ دیا۔

ترکی، 2011ء کے بعد بغاوت بارے جو پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے، کیا ہم ان تمام حقائق سے پوری طرح سے آگاہ تھے؟


سن 2011ء کے بعد عرب بہار کے تسلسل میں شام کے اندر پرانے سانحہ حماہ جیسے درجنوں نئے سانحاتِ حماہ رونما ہو چکے ہیں- درحقیقت 1982ء کے نا بھولنے والے سانحے میں کئی مزید سانحات کا اضافہ ہو گیا ہے۔ شاید یہ سانحات سالہا سال تک سفارتی اور مذاکراتی سطح پر ہونے والی آستانہ ٹاکس، بیانات، تبصروں اور رپورٹس میں زیر بحث بھی نہ آئیں۔

جیسا کہ ہم حالیہ اور گزشتہ سانحات سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے ہیں اسی طرح بہت سے لوگ "ہر وجہ کا ایک اثر ہوتا ہے” اس تعلق بارے سوچنا چھوڑ چکے ہیں بہت سی متضاد اور منقسم آراء ان معاملات پر پیدا کی جا رہی ہیں کہ بغاوت کیسے شروع ہوئی، کیسی وقوع پذیر ہوئی اور کس نے کہاں اور کیسے اس کو تخلیق کیا۔

بجائے بار بار غلطیاں دوہرانے کے اگلی نسل کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ ان دنوں میں ہونے والی غلطیوں سے کیسے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ تاہم آج ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے ان واقعات کے درست نتائج نکالنے سے قاصر ہیں، آنے والی نسل کیسے اس سے سبق حاصل کر پائے گی؟

 

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: