یورپ تیزی سے نسل پرست اور فاسطائی پارٹیوں کے کھیل کا میدان بنتا جا رہا ہے، صدر ایردوان

0 1,236

چھٹی ترک برطانوی تاتلیدل فورم اناطالیہ سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا: "سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بعض یورپی ممالک کے رویہ جس صبر کے ساتھ ہم برداشت کر رہے ہیں اس کی کوئی حد بھی ہے۔ ہم 400 سال کے تعلقات کو اس لیے برداشت نہیں کر سکتے کہ اس کے بدلے میں ہمارے ملک، ہماری قوم، ڈپلومیٹس اور وزراء کو ہر روز چار سیٹوں کے بدلے میں تضحیک کا نشانہ بنایا جائے۔ ہم یورپی سیاستدانوں سے چاہتے کہ وہ اپنے اس غلط رویے کو جلد ترک کر دیں”۔

یورپ

فورم کا قیام 2011ء میں عمل میں آیا تھا جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلیم، کاروبار، میڈیا اور سیاست کے میدان میں تعاون مضبوط ہوا تھا، تقریب کے موقع پر صدر ایردوان نے خصوصی خطاب کیا۔

لندن میں دہشتگرد حملہ

ترکی برطانیہ فورم پر بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے لندن حملوں کی پرزور مذمت کی اور برطانوی عوام سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا: "یہ حملہ اس بات کی تازہ مثال ہےکہ دہشتگردی کی کوئی سرحد، کوئی اصول اور کوئی اخلاق نہیں ہوتا ہے۔ یہ اہم ہے کہ 15 جولائی کی طرح جیسے ہماری پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا گیا اسی طرح پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے اگر وہ ناکام نہ بنائے جاتے، تو وہ لندن میں پارلیمنٹ کو بم سے اڑانے جا رہے تھے بحثیت ملک جس میں پارلیمنٹ اور ایوان صدارت کو دہشتگردوں نے 15 جولائی کی شب بمبوں سے نشانہ بنایا ہو، ہم ان گھناؤنے حملوں کا مطلب جانتے ہیں۔ وہ قوم جس نے داعش، پی کے کے اور گولن دہشتگرد تنظیم (فیتو) کے حملوں میں اپنے شہریوں، بچوں اور عورتوں کی جانیں گنوائی ہوں وہ آپ کے دکھ درد کی دلی کیفیت کا بہتر سمجھ اور حصہ دار بن سکتے ہیں”۔

نسل پرستی جمہوریت کے ساتھ نہیں چل سکتی

صدر ایردوان نے کہا: "یورپ تیزی سے نسل پرست اور فاسطائی پارٹیوں کے کھیل کا میدان بنتا جا رہا ہے۔ یہ پارٹیاں جن کی بعض مقامات پر ووٹ کی شرح 10سے 15 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکے وہ زہرآئیوی کی طرح ہیں اور یورپی سیاست پر غالب ہو رہے ہیں۔ اور چند یورپی رہنما محض چند مزید ووٹوں کے لیے ان خیالات کی تائید کر رہے ہیں۔ ٹھہریئے مجھے واضع طور پر کہنے دیجئے کہ یہ نقطہ نظر جو ہر اس چیز کو بیچتا ہے جو عام لوگوں کے رنگ، زبان، مذہب اور اصل سے مختلف ہو، خاص کر مسلمان ہو، تباہی کے سوا اس کا کوئی نتیجہ اس کے سوا نہیں نکلے گا۔ نسل پرستی جمہوریت کے ساتھ نہیں چل سکتی اور پاپولزم کے زریعے کوئی بھی مستقبل تعمیر نہیں کیا جا سکتا”۔

ترکی ثقافتی، تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے یورپ کا حصہ ہے

صدر ایردوان نے مزید کہا: ” ترکی غیر یورپی علاقہ نہیں ہے۔ یہ یورپ کا دشمن بھی نہیں ہے۔ ترکی ثقافتی،تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے یورپ کا حصہ ہے۔ ترکی مشرق اور مغرب کے درمیان پرانا اور مضبوط پل ہے۔ تاہم سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بعض یورپی ممالک کے رویہ جس صبر کے ساتھ ہم برداشت کر رہے ہیں اس کی کوئی حد بھی ہے۔ ہم 400 سال کے تعلقات کو اس لیے برداشت نہیں کر سکتے کہ اس کے بدلے میں ہمارے ملک، ہماری قوم، ڈپلومیٹس اور وزراء کو ہر روز چار سیٹوں کے بدلے میں تضحیک کا نشانہ بنایا جائے۔ ہم یورپی سیاستدانوں سے چاہتے کہ وہ اپنے اس غلط رویے کو جلد ترک کر دیں”۔

ترکی اور برطانیہ کے مابین تجارت کا حجم 20ملین ڈالر تک بڑھے گا

انہوں نے کہا کہ میں نے اور برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نےدونوں ممالک کے درمیان کم سے کم وقت میں تجارتی حجم 17 ارب ڈالر سے 20 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔ صدر ایردوان نے کہا کہ بریکزیٹ کے بعد دو طرفہ اقتصادی تعلقات کے مستقبل کا اندازہ لگانے کے لیے پہلے ہی ورکنگ گروپ قائم کیا گیا تھا۔

اگلے 15 سالوں میں، نجی اور سرکاری شعبوں مشترکہ طور پر ترکی میں بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری میں تقریبا ایک ٹریلین ڈالر مالیت مقرر کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے صدر ایردوان نے برطانوی سرمایہ کاروں سے کہا: "ترکی میں سرمایہ کاری کرو اور ان مواقع  سے فائدہ اٹھاؤ جو یہ ملک آپ کو پیش کرتا ہے! جس نے بھی ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کی وہ کبھی مایوس نہیں ہوگا”۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: