یورپ کا ایردوان کے خلاف اتحاد – ڈاکٹر فرقان حمید

0 1,283

ڈاکٹر فرقان حمید پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے انقرہ یونیورسٹی سے ترک زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1994ء میں وہ نہ صرف انقرہ یونیورسٹی میں ماہر زبان تعینات ہوئے بلکہ ٹی آر ٹی کی اردو سروس کے لیے ترجمان کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینا شروع کر دیں۔ وہ کئی اخبارات اور خبر رساں اداروں کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ انہیں کئی بار ترک صدور کے ساتھ ترک اردو ترجمانی کا اعزاز بھی ملا ہے۔ اس وقت وہ پاکستانی نیوز چینل جیو، اخبار جنگ اور ٹی آر ٹی کی اردو سروس کے سربراہ ہیں۔ وہ ہفتہ وار جنگ اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔

ڈاکٹر فرقان حمید

ترکی  اور یورپی یونین  کے تعلقات  روز بروز سردی مہری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ  یورپ  اور ترکی   کا ایک دوسرے کے بغیر تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ ترکی اگرچہ یورپی  یونین کا مستقل رکن  نہیں ہے لیکن یورپی یونین اسے  اپنی مستقل رکنیت عطا کرنے  کے لیے   ہمیشہ ہی   مختلف شرائط عائد کرتی رہی ہے  اور ترکی کی جانب سے   ان شرائط  کو  پورا کرنے کے باوجود یورپی  یونین  نے مختلف   حیلوں  اور   بہانوں  سے ترکی کو ٹرخانے  کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔   دراصل یورپ کو  ترکی پر اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے لیے  ترکی کی ترقی   کو روکنے  کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ صدر ایردوان ہی ہیں  جو ترکی کو  سن 2023ء تک  یورپ کے سب سے طاقتور  ملک کا روپ عطا کرنا چاہتے ہیں۔ ترکی  اس وقت  2.9 فیصد شرح ترقی سے یورپی ممالک اورOECDکے ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور ملک میں صدارتی نظام قائم ہونے  اورمضبوط  سیاسی استحکام کے بعد  یورپی یونین کے رکن ممالک اس خوف میں مبتلا ہیں  کہ وہ ترکی  کو سلطنتِ عثمانیہ  کی عظمت  ِ رفتہ  تک پہنچنے  سے کیسے  روک پائیں۔

  یورپی یونین  کےترکی سے متعلق منفی  رویے  کے  بارے میں  ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان  نے اپنی انقرہ میں صدارتی مہم  کے دوران  شدید مذمت کرتے ہوئے  دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ” ترکی  کو یورپی یونین  کی رکنیت   صرف صلیبی اتحاد کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں دی جا رہی ہے۔”   ترکی  نیٹو  میں متحدہ امریکا کے بعد  اپنی فوجی قوت  کے لحاظ سے  دوسرے بڑے اتحادی ملک کی حیثیت رکھتا ہے لیکن  نیٹو کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات  سرد مہری کا شکار ہیں  کیونکہ    ترکی اس وقت  روس کے زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔   ترکی اور روس کے تعلقات  اگرچہ ترکی کی جانب سے  روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد  خراب ہو گئے تھے  لیکن  یہ تعلقات اس وقت نیا رخ  اختیار  کرگئے   جب   روس نے  ترکی کی 15 جولائی کی ناکام بغاوت سے قبل ہی  ترکی کواس بغاوت  کے بارے میں  آگاہ کردیا تھا  جس پر  دہشت گرد  تنظیم   فیتو  نے  مقررہ وقت  سے  چند  گھنٹے قبل بغاوت برپا کردی۔ اگرچہ  راقم اس  بغاوت کی لمحہ  بہ لمحہ  رواداد  کو  اسی رات  جیو ٹی  وی  پرلائیو  پیش کرچکا ہے اور  روزنامہ جنگ میں  اپنے کالموں میں  تفصیلی معلومات بھی فراہم  کرچکا ہے لیکن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  اس بغاوت  کے ایسے گوشے پر   سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں   جو  آج  تک پاکستانی قارئین   کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔    جیسا کہ عرض کرچکا ہوں روس  کو اپنی خفیہ سروس کے  ذریعے  ترکی میں  بغاوت کی اطلاع پہلے ہی سے  مل چکی تھی جس پر  روس کے صدر پوتین نے     فوری طور پر خفیہ طور پر   اپنے  ایک مشیر  الیکسنڈر   دوگین  کو انقرہ روانہ کیا  اور مغربی ممالک   کو اس کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ۔  روسی مشیر دوگین نے اس بغاوت  اوربغاوت  میں جگہ پانے والے اہم  ناموں کی فہرست  حکومتِ ترکی کو پیش کی  ۔ بغاوت کے روز  صدر ایردوان  کے طیارے کو  ترکی کے ایف سولہ طیاروں نے نشانہ بنانا  تھا لیکن حکومتِ  روس کی  اس بغاوت کی خبر  کے  حکومتِ ترکی   کے ساتھ  شئیر  کرنے کے بعد   روس کے  سات طیاروں   اور ایس 400 میزائیلوں  نے صدر ایردوان کے طیارے کو نشانہ بنانے کے لیے تیار  ایف سولہ طیاروں کے پائلٹوں کو  وارننگ جاری کرتے ہوئے  ان  صدر ایردوان کے طیارے کو نشانہ بنانے  سے باز رکھا۔ متحدہ امریکا میں تیار ہونے والی بغاوت کے اس پلان کے مطابق   امریکی  سی این این  کی ٹی وی  ٹیم امان  پور کی قیادت میں  ٹیم ایک روز قبل ہی کوریج کے لیے  انقرہ اور استنبول  پہنچ چکی تھی۔ علاوہ ازیں    ترکی  میں امریکا کے فوجی ہوائی اڈے  انجرلیک   سےپرواز  کرنے  والے 45 ہیلی کاپٹر  باغیوں  کے آپریشن میں شمولیت اختیارکرچکے تھے  جس پر ترک پولیس   کے اڑھائی ہزار  اہلکاروں نے فوری طور پر انجیرلیک کے ہوائی اڈے   کا محاصرہ کرتے ہوئے   بجلی کو منقطع کردیا اور  امریکا  کو  واضح طور پر پیغام   دے دیا گیا  کہ” ہوائی اڈے کو  تحفظ کی خاطر  حکومتِ ترکی نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے ” حکومتِ ترکی کے اس پیغام کے بعد  اوباما انتطامیہ نے   فوری طور پر  کئی ملکی فوجی  آپریشن  کو ختم کرنے  کا حکم جاری کردیا۔

امریکا اور یورپ کو پختہ یقین تھا کہ  ایردوان کسی بھی صورت دہشت گرد تنظیم فیتو  کی  برپا  کردہ بغاوت   سے جانبر نہیں ہوسکیں گے  اور اس طرح ترکی جوکہ گزشتہ چودہ سال سے مسلسل  ترقی کی راہ پر گامزن   اور دنیا کی عظیم قوت بننے  کی دہلیز پر آن پہنچا ہے اور ایردوان کے 2023ء  کے اہداف جس میں ترکی  کو دنیا کی پہلی دسویں بڑی  طاقت بنانا مقصود ہے  کو لگام  دی جاسکے گی۔  یورپی ممالک اور  امریکا  اس بغاوت  کے ذریعے ترکی میں  آق پارٹی کو اقتدار سے ہٹا کر  ملک میں  پہلے کی طرح  کوالیشن حکومتوں  کے دور کو واپس لانے  کے خواہاں تھے  تاکہ   ترکی کے سیاسی استحکام  کو ہمیشہ کے لیے  ختم کردیا جائے  لیکن  ان ممالک  کو اس بات کی ہر گز  توقع نہ تھی کہ  ترک عوام ، صدر ایردوان کے ایک  پیغام پر  سڑکوں اور گلیوں میں نکل کر اور اپنی جانوں کی پرواہ  کیے بغیر ملک میں  ڈیموکریسی  کو مضبوط بنانے کا ایک ایسا کارنامہ سر انجام  دیں گے   جس کی دنیا میں  کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ اپنے مقاصد میں  ناکام رہنے کے بعد  یورپی ممالک نے  صدر ایردوان کے خلاف      باقاعدہ  مہم کا  آغاز کررکھا ہے اور صدر ایردوان کے خلاف  مہم چلانے والی دہشت گرد تنظیم”  پی کے کے” اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو  کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔  یورپی رہنما  خود بھی  صدر ایردوان کو ” آمر” قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور  بھی  لگا رہے ہیں۔صدر ایردوان نے  ان رہنماوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ  اگر  یہ رہنما   انہیں ” آمر” کہیں گے، تو وہ بھی یورپی رہنماؤں کو "نازی” ہونے کا طعنہ دیتے رہیں گےانہوں نے   سی این این ترک  کو بیان دیتے ہوئے کہا  کہ  ” یورپی رہنما  ان کو  تو "آمر ” کہتے رہیں  لیکن اگر وہ ان کو   یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان کو ” فاشسٹ”  یا ” نازی ” کہہ سکیں۔انہوں نے کہا کہ وہ  اس وقت تک  ان رہنماوں    کے لیے ایسی اصطلاحات کا استعمال کرتے رہیں گےجب تک  وہ ان کو "آمر”  کہتے رہیں گے۔ صدر ایردوان   نےجرمن چانسلر انگیلا میرکل کو  بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ” نازی اقدامات”  کرنے  کا الزام  لگانے سے گریز نہیں کیا ہے۔

یورپ اس بات سے بخوبی    واقف ہے کہ صدر ایردوان  کوئی ڈکٹیٹر نہیں بلکہ انہیں باون فیصد  عوام  کی مکمل  حمایت حاصل ہے۔  صدر ایردوان  کو  ملک  میں  16 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم میں کامیابی  کا پختہ یقین ہے اور کامیابی  کی صورت میں یورپ کے منہ پر ایسا طمانچہ رسید کرنے کی  توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ  کسی بھی یورپی رہنما کو  انہیں ” آمر” کہنے  کی جرات نہ ہو ۔   جرمنی،  ہالینڈ آسٹریا، سوئٹزر لینڈ ، ناروئے  اور ڈنمارک میںصدر ایردوان کے حق میں  مہم  کی  ریلیوں کی اجازت نہ دیے جانے کی وجہ سے  ترکی اور ان یورپی ممالک  کے مابین جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ صدر ایردوان  نے یورپی ممالک کے اس رویے  پر شدید تنقید کرتے ہوئے   ان تمام ممالک پر   نازی ازم  اور   فاشزم کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ان یورپی ممالک میں بڑی تعداد میں ترک باشندے  آباد ہیں   جن کی  واضح اکثریت  صدر ایردوان کی مکمل حمایت کرتے ہیں  اور ان ممالک میں   ترکی کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں  میں ووٹنگ بھی  کرائی جائے گی جس سے صدر ایردوان بھر پور طریقے سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں یورپی  یونین  میں آباد  یہ ترک باشندے  ملک کی  قسمت  بدلنے  کی صلاحیت  رکھتے ہیں۔

ترکی بھر میں  ان دنوں بھر  پور طریقے  سے  ریفرنڈم   سے متعلق  مہم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس صدارتی مہم  کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان   نے  یورپ کو  واضح پیغام دے دیا ہے کہ   یورپ  نے   ان کے   حق میں  مہم کو روک کر اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔

ترک صدر ایردوان نےاپنی صدارتی مہم کے دوران   اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ   سولہ اپریل کے ریفرنڈم کے بعد ترکی یورپی یونین کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات پر نظر ثانی کرے گا۔ علاوہ ازیں    ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے  عراقی اور شامی پناہ گزینوں  کے بارے میں طے پانے والے سمجھوتے  کے بارے میں بھی صدر ایردوان  واضح طور پر  یورپی یونین کو خبر دار کرچکے ہیں  اگر یورپی یونین کے ممالک نے ان پناہ گزینوں  سے متعلق  اپنے اوپر عائد ہونے والے  فرائض ادا نہ کیے تو  پھر حکومتِ  ترکی  اس سمجھوتے پر نظر ثانی  کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: