یورپ "ہاں” کہنے والوں کے لیے اپنے دروازے بند جبکہ "ناں” والوں کے لیے کھول رہا ہے، صدر ایراوان

0 1,271

سکرایا میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے یورپین کورٹ آف جسٹس کے اس فیصلے پر تبصرہ کیا جس میں کمپنوں کو اجازت دی گئی ہے حجاب کرنے والی ملازمین کو فارغ کر سکتی ہیں۔ صدر نے کہا: "وہ صلیبی جنگ کا آغاز کر چکے ہیں۔ اس عمل کی کوئی اور وضاحت نہیں ہے۔ مجھے کھل کر کہنے دیجئے کہیورپ قبل جنگ عظیم کے حالات کی طرف تیزی سے لڑھک رہا ہے”۔

یورپی یونین  نے ویزا ہٹانے کے وعدے پر عمل نہ کیا

صدر نے کہا: "کچھ یورپی عہدیدار کہتے ہیں ترکی یورپ میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتا لیکن وہ خود اپنی انتخابی مہم دوسرے ملکوں میں جا کرچلاتے ہیں”۔ انہوں نےمزید کہا:”یورپ نے ترکی کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ ویزے ہٹا دے گا لیکن اس نے وعدہ وفا نہ کیا۔ اب وہ دوبارہ داخلے کی بات کر رہے ہیں، دوبارہ داخلہ کیا ہے؟ بھول جاؤ، تم نے میری وزیر کو ہالینڈ میں داخل نہیں ہونے دیا۔ تم نے میرے وزیرخارجہ کو اترنے کی اجازت نہیں دی۔ تم نے ہمارے وزیر تو اپنے سفارت خانے میں داخل نہ ہونے دیا جو ہماری ہی زمین تھی۔ اور اب آپ چاہتے ہو کہ ہم آپ کو ان جگہوں تک رسائی دیں گے؟ کسی صورت نہیں”۔

ڈچ وزیر اعظم رتی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: "تم اپنے ملک کے انتخابات میں پہلی پارٹی بن کر سامنے آئے ہو لیکن تمہیں یاد رکھنا ہوگا کہ تم ترکی جیسے دوست سے محروم ہو چکے ہو۔ وہ کہتے ہیں ‘انتخابات کے بعد ہم وزیراعظم کے ساتھ ڈنر کریں گے’۔ یہاں ایسا کوئی وزیراعظم موجود نہیں ہے۔ تم بھول جاؤ، تم ہمیں ہار چکے ہیں”۔

جرمنی، ترکی کے خلاف ہونے والے اقدامات کا ہراول دستہ ہے

جرمنی، ترکی کے خلاف ہونے والے اقدامات کا ہراول دستہ ہے،صدر ایردوان نے کہا: "ہم نےجرمنی کو ‘پی کے کے’ کے 4500 دہشتگردوں کی فائلز دیں لیکن انہوں نے کوئی بھی قانونی کارروائی نہیں کی۔البتہ انہوں نے ایک دہشتگرد کو جرمن سفارت خانے میں پناہ دے دی۔ جرمن چانسلر نے مجھے کہا کہ میں اسے رہا کردوں۔ میں نے کہا یہاں عدلیہ آزاد ہے۔ جیسے کہ تمہاری عدلیہ آزاد ہے ویسے ہی ہماری ہے۔ اس دہشتگرد کو ٹرائل سے گزارا گیا اور گرفتار کیا گیا۔ کیونکہ وہ ایک ایجنٹ دہشتگرد تھا۔ انہوں نے کہا ‘یہ جرمن شہری ہے’۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر وہ ترکی میں دہشتگردی کرتا ہے، خفیہ ایجنٹ بنتا ہے، اسے اس جرم کی سزا بھگتنا پڑے گی”۔

صدر ایردوان نے کہا: "ترکی کے 3ملین غیرملکی ووٹر ہیں جو پارلیمنٹ کے 30 ممبر چننے کی طاقت رکھتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی ایسی طاقت کو روکا نہیں جا سکتا”۔ انہوں نے مزید کہا: "پی کے کے جیسی دہشتگرد تنظیم کو وہاں ٹینٹ لگانےاور اپنے قائدین کی تصاویر آویزاں کرنے کی اجازت ہے لیکن  ترک شہریوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ تم "ہاں” کہنے والوں کے لیے دروازے بند کر دیتے ہو اور جو "ناں” کی مہم چلا رہے ہیں ان کے لیے دل کے دروازے تک کھول دیتے ہو”۔

صدر ایردوان نے یورپین کورٹ آف جسٹس کے اس فیصلے پر تبصرہ کیا جس میں کمپنوں کو اجازت دی گئی ہے حجاب کرنے والی ملازمین کو فارغ کر سکتی ہیں۔ صدر نے کہا:کہاں ہے عقیدے کی آزادی؟ کہاں گئی تمہاری مذہبی آزادی؟ انہوں نے صلیبی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ وہ صلیبی جنگ کا آغاز کر چکے ہیں۔ اس عمل کی کوئی اور وضاحت نہیں ہے۔ مجھے کھل کر کہنے دیجئے کہیورپ قبل جنگ عظیم کے حالات کی طرف تیزی سے لڑھک رہا ہے”۔

نیا نظام کا مقصد مکمل استحکام کی فضاء قائم کرنا ہے

16 اپریل کے ریفرنڈم پر بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے آئینی ترامیم کی عوامی منظوری کی صورت پر کہا: "نیا نظام جو کہ نیا صدارتی نظام حکومت ہے اس کا مقصد ترکی میں مکمل استحکام اور اعتماد کی فضاء کا قیام ہے”۔

صدر نے پارلیمنٹ ممبران کی تعداد 550 سے 600 ہونے پر تنقید کے جواب میں کہا: "یورپی یونین میں چالیس ہزار شہری ایک ممبر پارلیمنٹ منتخب کرتے ہیں جبکہ 103 ہزار ترک شہری ایک ممبر پارلیمنٹ منتخب کرتے ہیں”۔

انہوں نے کہا: "اگر ترکی 1991ء سے ایک مستحکم حکومت کے ساتھ چل رہا ہوتا تو آج ہماری شرح افزائش دو گنا ہوتی۔ ہماری جی ڈی پی ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر ہو چکی ہوتی۔ ہماری فی کس آمدنی11ہزار ڈالر کے بجائے  22 ہزار ڈالر ہو چکی ہوتی”۔

تقریب کے بعد صدر ایردوان نے سکرایا گورنر ہاؤس اور میونسپلٹی کا دورہ کیا اور موٹر سائیکل ریسر کینان سوفواغلو کے گھر بھی گئے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: