‏1980ء کی فوجی بغاوت ترک جمہوریت کے دامن پر ‘سیاہ داغ’ ہے

0 603

صدارتی کمیونی کیشنز ڈائریکٹر فخر الدین آلتن نے 1980ء کی فوجی بغاوت کو ترک جمہوریت کے دامن پر سیاہ داغ قرار دیا ہے۔

فخر الدین آلتن نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ 12 ستمبر 1980ء کو جمہوریت اور انسانی حقوق پر ضرب لگائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ‏16 جولائی 2016ء کو ناکام فوجی بغاوت میں ظاہر کی گئی مزاحمت نے ظاہر کیا کہ عوام اب اپنے خلاف کوئی ایسا قدم برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے اس موقع پر 12 ستمبر کی بغاوت کی ایک وڈیو بھی پیش کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ترک قوم پورے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اپنے ملک کو ایک بہتر اور مضبوط مستقبل کے لیے تیار کر رہی ہے۔

40 سال قبل چیف آف جنرل اسٹاف کنعان ایورن نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے فوجی مداخلت کا اعلان کیا اور یوں آئندہ کئی سالوں کے لیے ملک بری طرح متاثر ہوا۔

ایورین اور دیگر جرنیلوں کو جرائم کی کھلی چھوٹ ملی رہی جو انہوں نے کئی سال تک کیے۔ صرف ایورین اور تحسین شاہین قایا، سربراہ فضائیہ، زندہ تھے جب 2012ء میں بغاوت کرنے والوں کے خلاف پہلی بار مقدمہ چلایا گیا۔ اب دونوں 90 کے پیٹے میں تھے، جب عدالت نے 2014ء میں انہیں عمر قید کی سزائیں سنائیں۔ لیکن صحت کے بڑھتے مسائل کی وجہ سے انہیں عملاً سزا نہیں ہوئی اور 2015ء ہی میں وہ مر گئے۔

قید خانوں میں تشدد، مظالم اور بد ترین حالات کی وجہ سے 299 افراد مارے گئے۔ یہ واقعات ترک قوم کی اجتماعی یادداشت میں آج بھی تازہ ہیں۔

جو لوگ باقی بچے انہوں نے جسمانی اور ذہنی تشدد کے بارے میں بتایا۔

اس دوران ملک بھر میں ساڑھے 6 لاکھ سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور 2 لاکھ 30 ہزار کو سیاسی وجوہات کی بنیاد پر مقدمات میں گھسیٹا گیا۔ کُل 50 افراد کو پھانسیاں دی گئیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: