ایک مضبوط ترکی، ایک مضبوط خِطہ

احسان آقتاش

0 1,193

جب سلطنتِ عثمانیہ ترقیاتی لحاظ سے مغربی ریاستوں سے پیچھے رہ گئی تو سلطنت کی اشرافیہ نے زوال کے اسباب کی تحقیقات کیں تاکہ حکومت کی اصلاح کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ لیکن یورپ صنعتی انقلاب اور دنیا بھر میں نو آبادیاتی نظام کی بدولت ہر گزرتی دہائی کے ساتھ مضبوط ہوتا گیا جبکہ سلطنتِ عثمانیہ اپنی سرحدوں میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوتی چلی گئی۔

سلطنتِ عثمانیہ میں پہلی اصلاحات فوجی صورت میں سامنے آئی تھیں۔ اپنے دور میں سلطان سلیم ثالث نے جدید اصلاحات کے ساتھ ایک نئی فوج کی تشکیل کے لیے قدم اٹھائے کہ جسے "نظامِ جدید” کہا گیا۔ جب یہ دیکھا گیا کہ فوجی شعبے میں تکنیکی اصلاحات ناکافی ہیں، تو سلطنت کی اشرافیہ نے سلطان محمود ثانی کی زیرِ قیادت جامع اصلاحات کا آغاز کیا۔

بلاشبہ یہ تنظیمات نامی اصلاحات کا دور تھا کہ جس نے سلطنتِ عثمانیہ کے ڈھانچے کو جدید مغربی ریاستوں کی طرز پر بخوبی جدید بنایا۔ گُل خانہ کے شاہی فرمان کے اعلان کے ساتھ شروع ہونے والی تنظیمات کو مؤرخین ترکی کی جدیدیت میں فیصلہ کن موڑ سمجھتے ہیں۔

سلطان عبد الحمید ثانی کا کامیاب دور سلطنتِ عثمانیہ کی جدیدیت کی تکمیل تھا۔ اس دور میں عسکری، طبی و صنعتی مکتبوں میں بھرپور اصلاحات کی گئیں۔ پوری عثمانی سلطنت میں جدیدیت کا زبردست کام بغداد اور حجاز ریلوے کی تکمیل کے ساتھ مکمل ہوا۔

دریں اثناء، مغربی اقوام کو عہدِ تنویر کی کی بدولت باقی دنیا میں برتری حاصل تھی کہ جسے صنعتی انقلاب سے تقویت ملی اور فرانسیسی انقلاب نے عملی صورت دی۔ اپنے نئے و مضبوط تصورات کے سامنے مختلف لوگوں کی تمام روایتی اقدار قدیم اور ضعیف الاعتقادی بن گئیں؛ یوں وہ ایک نئے مذہب، نئی تاریخ، سائنس کی نئی زبان اور نئے نظام کو سامنے لائے۔

سائنسی ایجادات اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر مغربی ریاستوں نے حیران کن رفتار سے دنیا کو نو آبادی بنانا شروع کردیا۔ براعظم افریقہ سے لے کر برصغیر اور ایشیا کے دور دراز علاقوں تک، عثمانی سلطنت کے حصوں سے لے کر امریکی براعظم تک پہلی جنگ عظیم تک مغربی نو آبادیاتی ریاستوں کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔

مغربی قبضے کے عمل کو نوآبادیاتی ممالک میں داخلی گروہوں کی مدد سے دوام ملا۔ نوآبادیاتی ذہنیت کی خوگر بننے والی ان ملکوں کا حکمران طبقہ، جو فوجی و شہری افسر شاہی اور دانشوروں پر مشتمل تھا، نے اپنے ملکوں مغربی نو آبادیت کو برقرار رکھا۔

سلطنت عثمانیہ کو انتشار اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کے لیے ریاست کی اشرافیہ نے نہ صرف جدیدیت کے لیے جامع اصلاحات کیں، بلکہ مختلف سیاسی تصورات بھی تیار کیے، جن میں سب سے نمایاں عثمانیت، اسلامیت اور قوم پرستی تھے۔

یہ تین بڑے سیاسی تصورات سلطنتِ عثمانیہ کی آخری صدیوں کے دوران بیک وقت موجود رہے۔ گو کہ ہر دور میں ان سیاسی طریقوں میں سے ایک غالب رہا، لیکن ریاستی انتظامیہ کا کوئی حصہ دیگر دو کے اثرات سے مستثنیٰ نہ تھا۔

اسلام ازم یعنی اسلامیت سلطان عبد الحمید ثانی کے عہد میں عثمانیوں کی مرکزی پالیسی بن گئی اور چند غیر عثمانی علاقوں تک بھی اس کے اثرات گئے، جیسا کہ ہندوستان پر۔ 1970ء کی دہائی میں نجم الدین اربکان نے اپنی سیاسی قابلیت کی بدولت اسلامیت کے نظریے کی تفہیمِ نو کی اور اسے دوبارہ زندہ کیا۔ نیو-اسلام ازم یعنی نو-اسلامیت کہلانے والے اربکان کے سیاسی نظریے کو مغربی دنیا نے ظالمانہ اور استحصالی قرار دیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کو انسانیت کی مشترکہ میراث قرار دیتے ہوئے اربکان نے امریکی سرمایہ دارانہ نظام اور سوویت اشتراکیت میں سے کسی ایک کے نظریاتی جال میں پھنسے بغیر صنعت کاری کے ذریعے ترکی میں آزادی و بہبود کے فروغ کا دفاع کیا۔

اپنے دور میں اربکان نے ہمیشہ ترک تاریخ کی عظمت اور ترک عوام کی آزادانہ فطرت پر زور دیا۔ وہ حقیقی معنوں میں یقین رکھتے تھے کہ ترکی دنیا کے عظیم ترین ممالک میں سے ایک بننے کی حقیقی صلاحیت رکھتا ہے – لیکن صرف اس صورت میں کہ جب ہم اپنی سوچ کے ذریعے انقلابات کو خود طاقت عطا کریں۔

انصاف و ترقی (آق) پارٹی کے عہد میں ترکی نے ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا۔ بالخصوص 10 سال کے جاری شامی بحران نے ثابت کیا کہ ترکی علاقے میں اثرات کے حوالے سے ایک اہم طاقت ہے۔ امریکا اور روس کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدوں نے ایک مرتبہ پھر ترکی کے ایک عظیم ملک بننے کے نظریات کا دروازہ کھول دیا ہے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: