ایسا نظام جو عوام کی خدمت نہ کرے اور انصاف و سلامتی کو یقینی نہ بنائے اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں، صدر ایردوان

0 445

جی20 رہنماؤں کے اجلاس کے دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "ایسا نظام جو عوام کی خدمت نہ کرے، انہیں امن و عافیت نہ دے، ان کی قدر نہ کرے اور انصاف اور سلامتی کو یقینی نہ بنائے، اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جاہ طلبی، غلبہ و تسلط، ناانصافی اور بغیر محنت کے دولت کے حصول پر کھڑے موجودہ عالمی معاشی ڈھانچے کے لیے ناممکن ہے کہ وہ لوگوں یا فطرت کا تحفظ کر سکے۔”

صدر رجب طیب ایردوان نے سعودی عرب کی قیادت میں ہونے والے جی20 رہنما اجلاس کے دوسرے سیشن سے بذریعہ وڈیو کانفرنس خطاب کیا۔

"ہم نے دیکھا ہے کہ وباء نے مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے”

صدر ایردوان نے کہا کہ "ہمارے پاس 2030ء کے ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے 10 سال سے بھی کم عرصہ بچا ہے۔ ہمیں اس دورانیے کا بہترین استعمال کرنا ہوگا اور جو وقت ضائع ہوا ہے اس کی تلافی کرنا ہوگی۔ ہم نے دیکھا کہ وباء نے کئی مسائل، خاص طور پر غربت اور عدم مساوات کو بڑھا دیا ہے۔ خاص طور پر افریقی بھائی اور بہنیں اور ہمارے ایشیائی اور لاطینی امریکی دوست بہت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ مہاجرین اور جبری طور پر بے دخل کیے گئے لوگ اس وباء کا سب سے کمزور شکار ہیں۔ معاشی مشکلات کے علاوہ ان لوگوں کو زینوفوبیا اور اسلاموفوبیا کا بھی سامنا ہے کہ جسے جان بوجھ کر بھڑکایا جا رہا ہے۔”

صدر ایردوان نے کہا کہ "ہمیں جنگوں سے متاثرہ علاقوں اور خطروں سے دوچار لوگوں کے لیے امداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔”

"ہم نے لاکھوں ضرورت مندوں کو امداد اور تحفظ فراہم کیا ہے”

یہ بتاتے ہوئے کہ گزشتہ چھ سالوں میں ترکی سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والا ملک ہے، صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم نے اپنے ملک میں 40 لاکھ مہاجرین کی میزبانی کی ہے، جن میں زیادہ تر شامی ہیں۔ ہم نے شامی سرحد کے اندر ادلب اور دیگر کئی مقامات پر بھی لاکھوں ضرورت مندوں کو امداد اور تحفظ فراہم کیا ہے۔ یہ تعداد بہت سے ممالک کی کُل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ ہم اپنے ملک میں پناہ لینے والے مہاجرین کے پُرامن اور باوقار قیام کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ ہم پورے عزم کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے حالانکہ مدد دینے کا وعدہ کرنے والے کئی ملکوں نے اپنے وعدے وفا نہیں کیے۔ اب ہم توقع رکھتے ہیں کہ سب اپنی ذمہ داری ادا کریں گے اور بوجھ اور ذمہ داریوں کو یکساں طور پر اٹھائیں گے۔ ایسا نظام جو عوام کی خدمت نہ کرے، انہیں امن و عافیت نہ دے، ان کی قدر نہ کرے اور انصاف اور سلامتی کو یقینی نہ بنائے، اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جاہ طلبی، غلبہ و تسلط، ناانصافی اور بغیر محنت کے دولت کے حصول پر کھڑے موجودہ عالمی معاشی ڈھانچے کے لیے ناممکن ہے کہ وہ لوگوں یا فطرت کا تحفظ کر سکے۔”

"ہم اپنے خطے کے استحکام، سکون اور مقامی امن میں حصہ ڈالنے کے لیے کام کریں گے”

کووِڈ-19 کو محض دنیا بھر میں تقریباً 14 لاکھ افراد کی موت کے سبب کی حیثیت سے دیکھنا غلط ہے، صدر نے کہا کہ "عالمی نظام کا بوسیدہ ڈھانچہ بھی، جو حل کے بجائے مسائل پیدا کرتا ہے اور ان کو مزید بڑھاتا ہے، اس سنگین منظرنامے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ وباء نے موجودہ نظام کی خرابی کو کھول کر رکھ دیا ہے اور ایک مرتبہ پھر سب کو ایک ہی کشتی کا سوار بنا دیا ہے۔”

صدر نے کہا کہ "اب بہتر سمجھ آتا ہے کہ ہمارا ‘دنیا پانچ سے کہیں بڑی ہے’ کا مطالبہ کتنا درست ہے، کہ جو ہم اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے کرتے رہے ہیں،” شام، لیبیا اور مشرقی بحیرۂ روم سے نگورنو-قاراباخ، عراق اور فلسطین جیسے مختلف محاذوں پر ترکی حقوق، آزادی اور انصاف کی جو جدوجہد کر رہا ہے اس کی اہمیت اب ظاہر ہو چکی ہے۔

صدر ایردوان نے زور دیا کہ "ہم سب سے پہلے اپنی قومی سلامتی، اپنے شہریوں کی زندگی اور املاک کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے اور اس کے بعد اپنے خطے اور اُن علاقوں کے استحکام، سکون اور مقامی امن میں حصہ ڈالیں گے کہ جنہیں ہم عزیز رکھتے ہیں۔”

"ہم مشرقی بحیرۂ روم کے معاملے پر ہمیشہ متحمل مزاج اور پرسکون رہے ہیں”

مزید زور دیتے ہوئے کہ ترکی نے دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے، تنازعات سے تحفظ اور استحکام کو مضبوط کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم نیٹو کا واحد ملک ہیں کہ جس نے شام میں داعش سے دست بدست لڑائی کی۔ گو کہ ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا، لیکن ہم اب تک تقریباً 9 ہزار غیر ملکی دہشت گردوں کو پکڑ کر ان کے ملکوں کے حوالے کر چکے ہیں۔ ہم نے اپنے ملک میں تقریباً ایک لاکھ افراد کو داخل ہونے سے روکا کہ جن کے روابط ہم نے ان جنگ زدہ علاقوں سے پائے۔ ہم نے ان علاقوں کو محفوظ کرکے 4 لاکھ 11 ہزار سے زیادہ شامی بہنوں اور بھائیوں کی اپنے وطن واپسی کو ممکن بنایا، کہ جہاں کبھی دہشت گرد دندناتے پھرتے تھے۔ لیبیا کی گورنمنٹ آف نیشنل ایکرڈ کو جو تربیت اور مشاورت ہم نے فراہم کی، اس کی وجہ سے یہ ملک خانہ جنگی کے گڑھے میں گرنے سے بچ گیا۔ یونان اور یونانی قبرص کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ہم نے ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رکھا اور مشرقی بحیرۂ روم کے معاملے پر متحمل مزاجی اختیار کی۔ ہم نے نگورنو-قاراباخ پر 30 سال پرانا قبضہ ختم کروانے میں اپنا حصہ ڈالا۔”

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: