ملا برادر کی قیادت میں صدر ایردوان سے ملنے کو تیار ہیں، طالبان ترجمان محمد نعیم

0 2,009

ایک غیر ملکی میڈیا گروپ سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان کے مسائل پر بات چیت کرنے کے لیے ترک صدر رجب طیب ایردوان سے طالبان رہنماء مناسب وقت پر ملنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ردعمل ترک صدر ایردوان کے حالیہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ طالبان کے سپریم کمانڈر کا ترکی میں استقبال کر سکتے ہیں۔

طالبان کی طرف سے استنبول امن کانفرنس میں شرکت سے انکار کے بعد ترکی اور گروپ کے تعلقات کمزور ہو گئے تھے جس کے ترکی نے کابل ائیرپورٹ سنبھالنے کی پیش کش کی تھی جس پر ابھی تک مختلف فریقین کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ تاہم طالبان نے نیٹو کے ساتھ ترکی کو بھی انخلاء کا مشورہ دیا تھا۔ باوجود اس کے کہ گذشتہ 20 سال میں ترکی کو کبھی بھی ناٹو کے حصے کے طور پر ڈیل نہیں کیا گیا تھا۔

طالبان ترجمان محمد نعیم نے کہا کہ "ہر کوئی ہمارے رہنما سے ملنا چاہتا ہے۔ اور ہم بھی چاہتے ہیں لیکن مناسب وقت پر۔ ہمارے یہاں دوحہ میں ترک سفارت خانے سے روابط موجود ہیں اور ہم تمام ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں”۔

افغان ترجمان نے اپنا یہ بیان تحریری طور پر بھیجا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم نے کابل ائیرپورٹ کی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت دوستانہ اور واضع الفاظ کے ساتھ ترکی کو پیغام دیا تھا۔

گذشتہ دن ترک وزیر دفاع حلوصی آکار نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں پاکستان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ طالبان کو ترکی کے ساتھ ‘فیس ٹو فیس’ بات چیت کے لیے اپنے اثرات کا استعمال کریں گے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ترکی کو اس بات چیت میں ثالث بننے کی پیش کش کی تھی۔

عمران خان نے کہا تھا کہ "ہم چاہتے ہیں ترکی اور طالبان کے لیے سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ وہ فیس ٹو فیس مذاکرات کریں۔ اس پر بات چیت ہو سکے کہ کابل ائیرپورٹ کی سیکیورٹی کیوں ضروری ہے”۔ انہوں نے مزید کہ ” اور ہم اس بارے طالبان سے بات کریں گے، ہم ان پر اپنے اثرات کو استعمال کریں گے کہ وہ ترکی سے فیس ٹو فیس بات چیت کریں”۔

ترکی کو افغانستان سے آنے والے مہاجرین پر بھی تحفظات ہیں کیونکہ وہ ترکی کی مقامی آبادی اور مقامی سیاست کے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ترکی، طالبان سے نہ صرف کابل ائیرپورٹ بلکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے بھی بات چیت کرنا چاہتا ہے۔

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی میں تیزی آتی جا رہی ہے اور جمعے کو ان کی جانب سے ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار کے علاوہ لشکر گاہ پر بھی قبضے کے دعوے سامنے آئے ہیں۔ قندھار گذشتہ دس دنوں میں طالبان کے قبضہ میں جانے والا 12واں صوبائی دارالحکومت ہے۔

جیسے جیسے طالبان شہروں پر قبضہ کر رہے ہیں لاکھوں افغان شہر چھوڑ کر سرحدوں یا محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک پاکستان، ترکی اور ایران ہیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: