دو دہائیوں کے مینڈیٹ کے بعد آق پارٹی کو اب تازہ دم ہونے کی ضرورت

احسان آق تاش

0 1,152

دو دہائیوں تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد انصاف و ترقی (آق) پارٹی نے جمہوری انتخابات کے ذریعے منصبِ اقتدار پر آنے والی سیاسی جماعتوں میں سب سے طویل عرصے تک حکومت میں رہنے والی ایک "غالب سیاسی جماعت” ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے ۔

اس لیے یہ سوال کرنے کا وقت آ چکا ہے کہ آیا آق پارٹی کی سیاسی زندگی بھی حزبِ اختلاف کی اہم جماعت جمہور خلق پارٹی (CHP) جتنی طویل ہوگی یا نہیں۔

2002ء میں آق پارٹی کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ترکی کے سیاسی و معاشی منظر نامے پر عرصے سے ایک ہنگامہ بپا تھا۔

1997ء کے فوجی میمورینڈم کی وجہ سے جسے "ما بعد جدید بغاوت” کہا جاتا ہے، سویلین سیاست تباہ ہو چکی تھی اور آنے والی حکومتیں معاشی بحران اور اس کے نتائج سے نمٹنے کے لیے کوئی نمایاں سرمایہ کاری نہیں کر سکیں۔

اس ہنگامہ خیز دور میں اقتدار سنبھالنے کے بعد آق پارٹی نے ایک محقق کی سی عرق ریزی سے ملک کے مسائل کی ترتیب بندی کی اور اپنے مضبوط ڈھانچے کی بدولت مرحلہ وار ان مسائل کو حل کیا جو ناسور بن چکے تھے اور پوری ثابت قدمی کے ساتھ عوام میں اپنی حمایت بڑھائی۔

آق پارٹی کی عمرانیاتی بنیاد ترکی کی دائیں بازو کی جماعتوں سے بالکل مختلف تھی۔ رفاہ پارٹی کا انتظامی ڈھانچا وراثت میں پانے والی آق پارٹی نے ترقی کے خواہاں قدامت پسندوں، قوم پرستوں، روایتی مذہبی برادریوں اور عوام کی بڑی تعداد کو اپنے پرچم تلے جمع کیا۔

اس پورے ڈھانچے کی قیادت ایک مضبوط رہنما کے ہاتھ میں تھی، جو عام لوگوں کی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک سیاسی انتظام کی تمام تر جزئیات کو جانتا ہے۔

جب رجب طیب ایردوان وزیر اعظم تھے تو آق پارٹی نے شبانہ روز محنت کی۔ عام گلی کوچوں کے معمولی ترین مسائل تک پر رد عمل دکھایا اور 50 فیصد ووٹ حاصل کر لیے۔

جب سے ایردوان صدر بنے ہیں، آق پارٹی کے ساتھ اُن کا تعلق کمزور ہوا ہے، جبکہ 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت نے سیاسی و سماجی دھچکے پہنچائے ہیں۔

مستقبل کے لیے مشورہ

اگلے 20 سالوں کے لیے آق پارٹی کو اپنے سیاسی کلچر میں موجود چند بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعت کے ڈھانچے میں موجود ‘بلائنڈ اسپاٹس’ کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے مختلف گروہ پارٹی کے مفادات کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دے رہے ہوں۔

کلاسیکی سیاسی معاہدوں میں سیاسی ڈھانچا انسانی جسم کی طرح ہوتا ہے۔ ایک فعال انتظامی میکانیے میں خون رگوں کے ذریعے پورے جسم میں گھومتا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ بلائنڈ اسپاٹس شریانوں میں خون رکنے کی علامت ہوں۔

ترکی کی روایتی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں آق پارٹی اپنے مضبوط رہنما کی بدولت بڑے پیمانے پر انتخابی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو ذہنی تھکاوٹ سے نمٹنے کے لیے اپنے انتظامی ڈھانچے کو تازہ دم کرتے رہتے ہیں۔

اپنے اگلے 20 سالوں میں آق پارٹی کو مزید بڑے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

ملک کو چلانے کی صلاحیت رکھنے والی کوئی متبادل جماعت نہ پانے کی وجہ سے ترکی کے رائے دہندگان 40 فیصد ووٹنگ کی شرح کے ساتھ آق پارٹی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

CHP کو ایک سماجی دباؤ کا سامنا ہے کہ جس سے وہ تمام تر کوششوں کے باوجود نمٹ نہیں سکتی۔

نیشنل الائنس کے داخلی مسائل ملک کو چلانے میں اس کی اہلیت کے حوالے سے شبہات پیدا کرتے ہیں۔

ترکی کی سیاست بالعموم اور نیشنل الائنس کو بالخصوص ایک مستقل نقصان پہنچا ہے جبکہ خلق ڈیموکریٹک پارٹی (HDP ) PKK دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنے اساسی تعلقات کی وجہ سے جمہوری نظام کو قبول نہیں کر سکتی۔

تو بالعموم ترکی کے رائے دہندگان ایک مضبوط رہنما کی حیثیت سے ایردوان کو چاہتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں، جبکہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ آق پارٹی ان کی کامیابیوں کا تسلسل جاری رکھے گی۔

آق پارٹی کے سیاسی اقتدار کی دو دہائیوں کے بعد ترکی میں نئی سماجی حرکیات جنم لے رہی ہیں۔

ملک کے روایتی مسائل حل ہونے کے بعد نئی نسل نہ صرف ٹیکنالوجی کے لحاظ سے جدت چاہتی ہے بلکہ جمہوری اصلاحات کے مطالبے بھی کر رہی ہے۔

پہلی دو دہائیوں میں آق پارٹی نے جمہوریت کے لیے انقلابی اصلاحات کیں۔ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف زبردست جدوجہد کرنے کے ایک مشکل دور کے بعد، اگلے 20 سالوں بھی برسرِ اقتدار رہنے کے لیے آق پارٹی کا جمہوریت کو ایک اہم سیاسی وژن کی حیثیت دے کر ملک کو زیادہ جمہوری بنانے کی سمت بڑھنا ضروری ہے۔

2023ء کے صدارتی انتخابات کے لیے آق پارٹی معیشت اور سیاست کے میدانوں میں ایک ڈجیٹل انقلاب لانے کا دعویٰ بھی کر سکتی ہے۔

ترکی کے مستقبل کا وژن پیش کرنے کے لیے مضبوط امیدوار کی حیثیت سے آق پارٹی کو ملک کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے کے لیے عوامی تائید کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہیے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: