نگورنو-قاراباخ معاہدے کی خلاف ورزی کی تو آرمینیا کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی، ترک وزیر خارجہ

0 555

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے کہا ہے کہ اگر آرمینیا نے فائر بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کی تو اسے اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

مولود چاؤش اوغلو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے، جس میں انہوں نے آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان کی جانب سے معاہدے پر دستخط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے، جس کی لازماً تعمیل کرنا ہوگی۔ "آذربائیجان ایک پُرامن حل کے حق میں ہے لیکن اگر آرمینیا معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے نتائج اسے خود بھگتنا ہوں گے۔”

انہوں نے کہا کہ آذربائیجان نے عملی میدان میں زبردست عسکری کامیابیوں کے باوجود یہ معاہدہ کیا ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ آذربائیجان امن کا خواہشمند ہے اور صرف اپنے مقبوضہ علاقے خالی کروانا چاہتا ہے۔

چاؤش اوغلو نے کہا کہ انقرہ اور ماسکو جلد ہی اس مشاہداتی مرکز کی تفصیلات پر بات کریں گے کہ جو نگورنو-قاراباخ میں فائر بندی کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کے لیے قائم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرونز اور دیگر طیارے علاقے کی فضائی نگرانی کا کام انجام دیں گے، جس میں یقینی بنایا جائے گا کہ کہیں خلاف ورزی تو نہیں ہو رہا۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم آذربائیجان کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور اس کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی امید کرتا ہے کہ آرمینیا کو سبق مل چکا ہوگا کہ دوسرے ملکوں کے علاقوں پر حملہ نہیں کرنا۔ انہوں نے کہا کہ ‘منسک گروپ’ کو بھی اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس تنازع میں آرمینیا کی حمایت کرنے پر فرانس پر تنقید کرتے ہوئے چاؤش اوغلو نے کہا کہ پیرس نے ثابت کیا ہے کہ آخر منسک گروپ تین دہائیوں سے اس تنازع کو حل کیوں نہیں کر پایا۔ "فرانس نے حقیقی اور متوازن رویہ نہیں اپنایا۔ آذربائیجان کے مثبت رویے کے باوجود فرانس نے ہمیشہ آرمینیا کی حمایت کی اور فائر بندی کے بعد بھی اپنے منفی رویّے سے باز نہیں آیا۔”

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان تعلقات 1991ء سے خراب ہیں جب آرمینیا کی فوج نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ آذربائیجانی علاقے نگورنو-قاراباخ پر قبضہ کر لیا تھا۔

حالیہ کشیدگی کا آغاز 27 ستمبر کو ہوا کہ جب آرمینیا کی فوج نے آذربائیجان کی شہری آبادی اور فوجی ٹھکانوں پر حملے شروع کیے، یہاں تک کہ انسانی بنیادوں پر کی گئی فائر بندیوں کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔

باکو نے 44 دنوں میں نگورنو-قاراباخ کے کئی شہر اور تقریباً 300 دیہات بھی آرمینیا کے قبضے سے آزاد کروائے۔

10 نومبر کو دونوں ممالک نے روس کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کو تسلیم کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا اور اب یوں تنازع کے جامع حل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ترکی نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے اور باکو کی عسکری کامیابیوں کو اس کی وجہ قرار دیا ہے، کیونکہ انہی کے نتیجے میں اسے یریوان کے مقابلے میں برتری حاصل ہوئی۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: