آذربائیجان اور آرمینیا نے امن مذاکرات کے لیے روس کی دعوت قبول کر لی
آذربائیجان اور آرمینیا نے روس کے صدر ولادیمر پوتن کی امن مذاکرات کی دعوت قبول کر لی ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخاروفا نے بتایا ہے کہ "باکو اور یریوان نے ماسکو میں ہونے والی مشاورت میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔اس کی تیاریاں جاری ہیں اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین گفتگو جمعے سے ہی شروع ہو جائے گی۔”
روس کے صدر نے نگورنو-کاراباخ میں باہم متصادم دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کو مدعو کیا تھا۔
کریملن کا کہنا ہے کہ "روس کے صدر نگورنو-کاراباخ میں لڑائی کو انسانی بنیادوں پر روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ہلاک شدگان کی لاشیں اور قیدیوں کا تبادلہ ہو۔”
صدر روس کی دعوت آذربائیجانی صدر الہام علیف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان کے ساتھ فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد آئی۔
قبل ازیں انہوں نے کہا تھا کہ روس آرمینیا کا دفاع کرنے کا پابند نہیں ہے کیونکہ آذربائیجان کے ساتھ تصادم آرمینیا کی سرزمین پر نہیں ہو رہا۔
کریملن کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئي لاوروف ان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کریں گے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین تعلقات 1991ء سے کشیدہ ہیں جب آرمینیا کی فوج نے نگورنو-کاراباخ پر قبضہ کر لیا تھا جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ آذربائیجانی علاقہ ہے۔
تازہ ترین کشیدگی کا آغاز 27 ستمبر کو ہوا لیکن اب تک اس کے خاتمے کے لیے تمام تر بین الاقوامی مطالبات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آرمینیا بدستور شہری علاقوں اور آذربائیجانی افواج پر حملے کر رہا ہے حالانکہ وہ اس مقبوضہ علاقے کے حقیقی مالک ہیں۔
1992ء میں آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کو آپریشن اِن یورپ (OSCE) نے فرانس، روس اور چین کی زیر صدارت منسک گروپ قائم کیا تھا تاکہ اس تنازع کا کوئی پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔ 1994ء میں دونوں ممالک نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔
روس، فرانس اور امریکا سمیت کئی ممالک فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں جبکہ ترکی آذربائیجان کے اپنا دفاع کرنے کے حق کی حمایت کرتا ہے۔
الہام علیف کا کہنا ہے کہ اس دہائیوں پرانے مسئلے کے حل کے عمل میں ترکی کو لازماً شامل کرنا ہوگا۔