اگر کسی ملک نے آذربائیجان کو دھمکایا تو باکو ترک فوج بلا لے گا، الہام علیف
آذربائیجان کے صدر الہام علیف نے کہا ہے کہ اگر کسی ملک نے باکو کو دھمکایا تو وہ ترک فوج کو طلب کر لیں گے۔
جاری مقبوضہ نگورنو-قاراباخ تنازع کے حوالے سے صدر نے کہا کہ ہم نے تمام ملکوں پر زور دیا ہے، اپنے پڑوسیوں پر بھی اور دوسرے ملکوں پر بھی کہ وہ اس تنازع سے دُور رہیں۔ آذربائیجان بین الاقوامی طور تسلیم شدہ اپنی سرزمین پر آرمینیا سے لڑ رہا ہے۔
الہام علیف نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ترکی کی مدد کی ضرورت پڑے گی، لیکن ترکی کے ساتھ ان کا معاہدہ ہے، جس پر سالوں پہلے دستخط ہوئے تھے کہ جارحیت کی صورت میں وہ فوجی مدد طلب کرے گا۔
علیف نے کہا تھا کہ "اگر آذربائیجان کو جارحیت کا سامنا کرنا پڑا اور ترکی کی فوجی مدد کی ضرورت پڑی، تو وہ اس آپشن کا استعمال کر سکتا ہے۔”
علیف کا یہ بیان آذربائیجانی فوج کی جانب سے 28 سال بعد شوشا کے اہم شہر کی آرمینیا کے قبضے سے چھڑانے کے ایک دن بعد آیا ہے۔
یہ عسکری لحاظ سے ایک بہت اہم شہر ہے کیونکہ یہ علاقے کے دارلحکومت خاقندی سے 10 کلومیٹرز جنوب میں اہم بلندی پر واقع ہے اور اس سڑک پر ہے جو شہر کو آرمینیا کے علاقوں سے ملاتی ہے۔
آذربائیجان کا تقریباً 20 فیصد علاقہ، جس میں نگورنو-قاراباخ اور سات ملحقہ علاقے شامل ہیں – تقریباً تین دہائیوں سے آرمینیا کے قبضے میں ہے۔
اس وقت جبکہ عالمی طاقتوں کی جانب سے فائر بندی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں، ترکی نے آذربائیجان کے دفاع کے حق اور آرمینیا کی قابض فوجوں کے انخلاء کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی کئی قراردادیں قابض افواج کے غیر مشروط انخلاء کا مطالبہ کرتی ہیں۔
آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1990ء کی دہائی سے تعلقات کشیدہ ہیں جب آرمینیا کے علیحدگی پسندوں نے یریوان کی مدد سے اس پہاڑی صوبے پر قبضہ کر لیا تھا اور جنگ میں تقریباً 30 ہزار افراد مارے گئے تھے۔
نگورنو-قاراباخ کی خود ساختہ آزادی کو بین الاقوامی طور پر کسی نے تسلیم نہیں کیا، حالانکہ آرمینیا تک نے نہیں، اور یہ بین الاقوامی قوانین کے تحت اب بھی آذربائیجان کا علاقہ ہے۔
آجکل علاقے میں 1994ء کے بعد کشیدہ ترین حالات ہیں کہ جو 27 ستمبر سے شروع ہوئے اور بھرپور سفارتی کوششوں کے باوجود اب تک صورت حال برقرار ہے۔