باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار، ایک تاریخی ڈراما، قسط 1
ترکی کے مختلف ڈراموں نے نہ صرف اپنے ملک بلکہ بیرونِ ملک خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے ‘ارطغرل غازی’ نے تو یہاں ریکارڈز ہی توڑ دیے ہیں اور ملک میں ترک تاریخی ڈراموں کی طلب میں بھی زبردست اضافہ کیا ہے۔ انہی میں سے ایک نئی سیریز ‘باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار’ ہے جو 16 ویں صدی کے مشہور چار بھائیوں خضر، عروج، الیاس اور اسحاق کی داستان ہے۔
اس سیریز کی کہانی جنید آئیسان، اوزان آق سنگور اور اوغوز ایاز نے لکھی ہے جبکہ ہدایات طوغان امید قراجا اور عدیل ادیب نے دی ہیں۔ عروج کا کردار اینجن آلتن دوزیاتن نے ادا کیا ہے جو ارطغرل غازی کے مرکزی کردار کی حیثیت سے ویسے ہی بہت معروف ہیں جبکہ خضر یعنی خیر الدین باربروس کے کردار کو اولاش تونا آس تپہ نے نبھایا ہے۔
اس ڈرامے کی پہلی قسط کا آغاز بحیرۂ روم کے ایک مختصر سے تعارف سے ہوتا ہے جو افریقہ، یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ایک سمندر ہے۔ یہ زمانہ قدیم ہی سے اپنے ساحلوں پر موجود علاقوں کے درمیان رابطوں کا اہم ترین ذریعہ رہا ہے اور صدیوں سے عالمی طاقتوں کے درمیان کشمکش کا مرکز بھی رہا ہے۔
16 ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ اور اس کے مقابلے مسیحی ریاستوں کے درمیان رسا کشی میں بھی بحیرۂ روم اور اس میں لڑی گئی جنگوں کا اہم ترین کردار ہے، جن میں جتنی شہرت خضر یعنی خیر الدین باربروس اور ان کے بھائیوں اسحاق، عروج اور الیاس نے حاصل کی، شاید ہی کسی دوسرے کے نصیب میں آئی ہو۔
بحیرۂ روم کے جزیرے مدلّی (لیسبوس) سے تعلق رکھنے والے یہ چاروں بھائی اپنے والد کی وفات کے بعد علیحدہ علیحدہ زندگی گزارتے ہیں۔ بڑے بھائی اسحاق کی تمام تر مخالفت کے باوجود عروج اور الیاس سمندروں کا رخ کرتے ہیں۔ خضر تعلیم کے بعد مدلّی واپس آتے ہیں تو اسحاق بہت خوش ہوتے ہیں لیکن انہیں اندازہ نہیں ہوتا کہ خضر دراصل ایک ‘مقدّس راز’ کی تلاش میں ہے۔
پہلی قسط بنیادی طور پر خضر کی اپنے استاد سلیمان کی مدد سے اس راز کے تعاقب کی داستان ہی بیان کرتی ہے۔ اس سفر میں خضر کی دشمنی مسیحی پوپ کے ایک دست راست پیٹرو سے ہو جاتی ہے، جو خود بھی اسی راز کی تلاش میں ہے۔
اس قسط کا آغاز ہوتا ہے عروج اور الیاس کے ایک خطرناک سفر سے، جس کے دوران ایک تنگ سمندری راستے سے گزرتے ہوئے انہیں ایک حملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی مڈ بھیڑ ایک بحری قزاق اینریکو سے ہوتی ہے جو عروج کے جہاز کو لوٹنا چاہتا ہے۔ ایک سخت مقابلے کے بعد عروج کو کامیابی نصیب ہوتی ہے اور اینریکو قتل کر دیا جاتا ہے۔
دوسرے منظر میں ہمیں اسحاق بے اور ان کا خاندان مدلّی کی بندرگاہ پر خضر کا انتظار کرتا نظر آتا ہے۔ اسحاق بے اپنے دوسرے بھائیوں عروج اور الیاس سے واضح طور پر ناخوش دکھائی دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خضر اُن کے راستے پر نہ چلے۔
بہرحال، خضر مدلّی آتے ہی اپنے استاد سلیمان کا رخ کرتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ میرے خیال میں اس مقدس راز کی چابی شہزادہ مراد کے پاس ہے۔ شہزادہ مراد پیٹرو کی قید میں ہوتا ہے بلکہ مسیحیت ہی اختیار کر لیتا ہے۔ خضر کہتے ہیں کہ وہ اس چابی کے حصول کے لیے پیٹرو کے جزیرے کلیمنوس کا رخ کریں گے۔ استاد سلیمان خضر کو راستے کے خطروں سے خبردار بھی کرتے ہیں لیکن خضر اپنے ارادے کے پکّے نظر آتے ہیں۔
پیٹرو اس مقدس راز کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتا ہے اور اس کے ارادے اور عمل کو بارہا دکھایا جاتا ہے کہ وہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔ سقوطِ غرناطہ کے بعد مسلمانوں کو افریقہ کے ساحلی علاقوں سے بھی نکالنا اس کا منصوبہ ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ اپنے خزانے کے منہ کھولنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
اُدھر عروج چھوٹے بھائی الیاس کو اسکندریہ پہنچنے سے پہلے اپنے مقاصد سے آگاہ کرتے ہیں۔ وہ مختلف اہم جزائر اور وہاں کام کرنے والے اہم شخصیات مثلاً کمال رئیس، آئیدن، قلیچ بے اور براق رئیس سے آگاہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "یہ سب کسی اشارے کا انتظار کر رہے ہیں اور اللہ کے حکم سے ہم ان سب سے زیادہ بھاری بوجھ اٹھائیں گے۔ جس طرح کفار صلیب تلے اکٹھے ہیں، ہمیں بھی ہلال کے نیچے متحد ہونا ہوگا اور یہی میرا مقصد ہے۔”
بہرحال، ایک بدنام قزاق کے قتل کے بعد سامان کے ساتھ بحفاظت اسکندریہ پہنچتے ہیں تو ان کا پر تپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ قلیچ بے کو اپنے بیٹے شاہین بے پر سخت ناراض دکھایا جاتا ہے کیونکہ اس کی کوتاہ نظری کی وجہ سے عروج بے جیسا بہادر شخص ان کے بجائے کسی اور کے لیے کام کرنے پر مجبور ہوا۔ اپنی بے عزتی اور والد کی جانب سے عروج کو بہت عزت و احترام دینے پر شاہین بے ایک سازشی کردار جعفر سے عروج اور الیاس کے قتل کا منصوبہ تیار کرواتا ہے جو چند زر خرید غلاموں کو یہ ہدف دیتا ہے۔
دوسری جانب خضر کو اپنے ایک ساتھی نیکو کی مدد سے ایک خطرناک سفر پر تنہا نکلتے دکھایا جاتا ہے۔ جہاں وہ ایک لوہار کا روپ دھار کر شہزادہ مراد کو پکڑنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرتے ہیں۔ ایک روز ایک تقریب کے دوران جہاں شہزادہ مراد بھی موجود ہوتا ہے، خضر کی جانب سے گرجے کے گھنٹے میں نصب کیا گیا دھماکا خیز مواد پھٹ پڑتا ہے اور بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خضر جائے وقوعہ سے فرار ہونے والے شہزادہ مراد کو جا پکڑتے ہیں اور جیسے ہی اسے اپنے ساتھ لے جانے والے ہوتے ہیں کہ انہیں چند مسیحی سپاہیوں کے نرغے میں ایک مظلوم مسلمان عورت نظر آتی ہے جسے اس دھماکے کے الزام میں گرفتار کیا گيا ہوتا ہے۔ زینب نامی یہ عورت دراصل اس جزیرے پر موجود ایک مشہور معالج جیووانی سے ایک دوا لینے کے لیے آتی ہے لیکن غلط وقت پر غلط جگہ پر موجود ہونے کی وجہ سے پکڑی جاتی ہے۔ خضر اسے بچانے کے لیے میدان میں کود پڑتا ہے۔
عروج کے ہاتھوں قتل ہونے والا اینریکو دراصل ایک بدنامِ زمانہ قزاق انتوان کا بھائی تھا، جو خود کو سمندروں کا دیوتا پوسیدون کہتا ہے اور اپنے بھائی کی موت کا بدلا لینے کا عہد کرتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اینریکو کے قاتل عروج کے دراصل تین مزید بھائی ہیں اور ایک بھائی مدلّی میں عام زندگی گزارتا ہے۔ اس لیے وہ سب سے پہلے آسان شکار کا رُخ کرتا ہے یعنی اسحاق بے کا۔
پہلی قسط کا اختتام اس طرح ہوتا ہے کہ انتوان اسحاق بے کے گھر میں گھس کر ان کی اہلیہ اور بچوں کو قتل کر کے انہیں پکڑ لیتا ہے، خضر زینب سمیت فرار ہوتے ہوئے مسیحی سپاہیوں کے نرغے میں آ جاتے ہیں جبکہ عروج اور الیاس جعفر کے غلاموں کے گھیرے میں ہیں اور الیاس ان کی تلوار کی نوک پر ہے۔
اس سنسنی خیز موڑ کے ساتھ پہلی قسط اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ آگے کی کہانی جلد ہی اگلی قسط میں پیش کی جائے گی۔