باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار، ایک تاریخی ڈراما، قسط 2
’باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار’ ترکی کی ایک نئی ٹیلی وژن سیریز ہے جو 16 ویں صدی کے چار مشہور بھائیوں خضر، عروج، الیاس اور اسحاق کی داستان ہے۔
جنید آئیسان، اوزان آق سنگور اور اوغوز ایاز کی لکھی گئی اور طوغان امید قراجا اور عدیل ادیب کی ہدایت میں بنائی گئی اس سیریز میں ارطغرل غازی کے کردار سے مشہور ہونے والے اینجن آلتن دوزیاتن نے عروج کا کردار ادا کیا ہے جبکہ خضر یعنی خیر الدین باربروس کے کردار کو اولاش تونا آس تپہ نے نبھایا ہے۔
ڈرامے کی پہلی قسط کی کہانی ہم آپ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں، آئیے اب دوسری قسط کی طرف چلتے ہیں، جس کا آغاز اسی سنسنی خیزی کے ساتھ ہوتا ہے جہاں پہلی قسط مکمل ہوئی تھی۔ یہاں سب سے پہلے عروج اور الیاس کرائے کے قاتلوں کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اس دوران عروج الیاس پر تلوار سونت کر کھڑے ہونے والے غلام کو بھی معاف کر دیتے ہیں۔ دوسری جانب خضر اور زینب پہاڑی سے سمندر میں چھلانگ لگا کر مسیحی سپاہیوں کے نرغے سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ پہلی قسط میں عروج کے ہاتھوں مارے جانے والے بحری قزاق اینریکو کا بھائی انتوان عرف پوسیدون اسحاق بے کو مدلّی سے اغوا کر کے لے جاتا ہے۔

دوسری جانب پیٹرو تقریب کے دوران ہونے والی دھماکا خیز کارروائی کی کھوج لگانا شروع کر دیتا ہے کہ آخر کوئی ایسا کیوں کرے گا؟ اسے بتایا جاتا ہے کہ مشتبہ شخص، یعنی خضر، شہزادہ مراد کے پیچھے جاتا دیکھا گیا تھا جس پر شہزادے کو طلب کیا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ جاتے ہوئے وہ شخص اس کے گلے سے ہار اتار کر لے گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس ہار میں کوئی ہیرے جواہر نہیں تھے بلکہ وہ مراد کو اپنے والد جم سلطان سے وراثت میں ملا تھا۔ پیٹرو سمجھ جاتا ہے کہ اس ہار میں کوئی خاص چیز تھی اور شہزادے سے کہتا ہے کہ وہ اس واقعے کا ذکر کسی سے نہ کرے۔ بعدازاں پیٹرو پوپ کو ایک خط لکھتا ہے اور اس ہار کا ایک خاکہ بھیج کر رہنمائی طلب کرتا ہے۔
جزیرہ کلیمنوس سے فرار ہوتے ہوئے کشتی میں خضر اور زینب کے مابین کچھ گفتگو ہوتی ہے، جس میں زینب بتاتی ہے کہ اس کا تعلق ایک سلسلے جزولیہ سے ہے۔ وہ اسکندریہ میں ایک یتیم خانے میں کام کرتی ہے جہاں بحری قزاقوں کے حملوں سے متاثرہ خاندانوں کے بچے رہتے ہیں۔ وہاں ایک بچہ سخت بیمار تھا اور اس کی دوا صرف کلیمنوس کے مشہور معالج جیووانی کے پاس ہی تھی۔ وہ یہ دوا لینے کے لیے ہی اس جزیرے پر آئی تھی لیکن فرار کے دوران اس کی دو میں سے ایک بوتل راستے ہی میں گر گئی۔
اُدھر عروج اور الیاس سمجھ جاتے ہیں کہ ان کے قتل کی سازش میں جعفر ہی کا ہاتھ ہے اور وہ اسے دھمکاتے ہیں کہ آئندہ ایسی کسی بھی حرکت کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ جعفر کو شاہین بے سے بھی سخت ڈانٹ پڑتی ہے لیکن وہ اسے ایک موقع ضرور دیتا ہے۔ بابا عروج کو شاہین اور جعفر کی اس ملاقات کی اطلاع اپنے ایک ساتھی اسکندر کے ذریعے مل جاتی ہے اور وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ دراصل اس سازش کے تانے بانے شاہین بے سے جا ملتے ہیں۔
اپنی کمین گاہ کا رخ کرتے ہوئے راستے میں پوسیدون اسحاق بے پر بہت تشدد کرتا ہے۔ وہ بالآخر ایک دور دراز جزیرے پر پہنچتے ہیں، جہاں وہ باقی بھائیوں کا انتظار کرتے ہیں تاکہ سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔
عروج اور الیاس اسکندریہ کا ایک سرائے میں بہت آنا جانا ہوتا ہے بلکہ انہیں کام اس کے مالک کی بیٹی ایزابیل سے ہی ملتا ہے جو دراصل وینس سمیت بحیرۂ روم کے کنارے واقع کئی مسیحی ریاستوں کے اتحاد ‘اونیتا’ کے لیے تجارت کا کام کرتی تھی۔ ایک روز ایزابیل کی سرائے میں ہی عروج اور الیاس کو خبر ملتی ہے کہ پوسیدون نے مدلّی میں ان کے بھائی اسحاق بے کے گھر پر حملہ کر کے ان کی بھابھی اور بھتیجوں کو قتل کر دیا ہے جبکہ اسحاق بے لاپتہ ہیں۔
یہ روح فرسا خبر سننے کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور اس مہم کے لیے ایزابیل ‘اونیتا’ کا جہاز اُن کے حوالے کر دیتی ہے، جس بعد ازاں اسے اپنے والد سے بہت ڈانٹ بھی سننا پڑتی ہے۔
خضر زینب کو اسکندریہ کے جہاز پر روانہ کر کے واپس مدلّی پہنچتا ہے اور استاد سلیمان کو اپنے کارنامے سے آگاہ کرتا ہے کہ وہ شہزادہ مراد کا ہار لے آیا ہے۔ استاد یہ ہار اپنے پاس رکھنے کے بجائے کہتے ہیں کہ خضر ہی یہ ہار اپنے پاس رکھنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ ملاقات کے بعد جب خضر گھر پہنچتا ہے تو اسے دروازے پر لگا پوسیدون کا پیغام ملتا ہے ‘بھائی کے بدلے بھائی!’ اور گھر میں اپنی بھابھی اور بھتیجوں کی لاشیں ملتی ہیں۔

کلیمنوس میں جیووانی پیٹرو کی کچھ گفتگو سن لیتا ہے اور اسے زینب کے حوالے سے خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ وہ اس کے حق میں گڑا گڑا کر دعا مانگتا ہے لیکن اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ پہلے آزمائش خود اسی کی ہوگی۔ پیٹرو کے سپاہیوں کو زینب اور خضر کی جائے فرار سے وہی بوتل ملتی ہے جو فرار ہوتے ہوئے زینب کے سامان سے گر گئی تھی۔ وہ دیکھتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ یہ جیووانی کے دواخانے کی ہے۔ سپاہی جیووانی کو پکڑ لیتے ہیں اور اسے بد ترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ جبکہ اسکندریہ میں زینب اس پورے معاملے سے بے خبر ہے لیکن اس نے جیووانی کی دوا سے بچے کا علاج کامیابی سے کر لیا ہے۔
خضر اپنے پیاروں کی تدفین کے بعد استاد سلیمان اور اپنے ساتھی نیکو کی مدد سے پوسیدون کے ٹھکانے کا پتہ چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ خضر کے ساتھ اس مہم پر نیکو بھی ہوتا ہے۔ اُدھر عروج اور الیاس بھی پوسیدون سے ٹکرانے کے منصوبے بناتے ہیں اور اسکندریہ کا حاکم قلیچ بے بھی پوسیدون کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس فیصلے پر شاہین کے ماتھے پر بل پڑتے نظر آتے ہیں تو قلیچ بے سب کے سامنے اسے تھپڑ مار دیتا ہے۔ شاہین آگ بگولا ہو کر نکل جاتا ہے جبکہ عروج اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بھائی کی تلاش کی مہم پر روانہ ہو جاتا ہے۔
ایک طرف خضر سفر کے دوران نیکو کو اپنے بچپن کا واقعہ سناتا ہے کہ کس طرح ایک روز وہ بارش کے دوران پہاڑوں میں پھنس گئے تھے اور اسحاق آغا ان کی مدد کے لیے آئے تھے۔ جبکہ عروج اور الیاس بھی اسی واقعے کو یاد کرتے دکھاتے دیتے ہیں کہ جس میں نوجوان اسحاق آغا انہیں کہتے ہیں ‘بھائی کبھی بھائی کو تنہا نہیں چھوڑتا۔’
پیٹرو مقدس راز کی تلاش میں ایک مسلمان کا روپ دھار کر ایوب نامی ایک شخص کے پاس پہنچتا ہے۔ وہ ایوب کے بیٹے حمزہ کو تلوار کی نوک پر رکھ کر اس سے کتاب کی بابت پوچھتا ہے۔ بیٹے کو موت کی دہلیز پر دیکھ کر ایوب بتا دیتا ہے کہ وہ کتاب سلیمان کے پاس ہے۔ ابھی پیٹرو معلوم ہی نہیں کر پاتا کہ کس سلیمان کا ذکر ہو رہا ہے، اس کی توجہ بٹتے ہوئے دیکھ کر حمزہ بھاگ نکلتا ہے۔ پھر ایوب اور پیٹرو میں لڑائی ہوتی ہے جس میں بے بس ہو جانے کے بعد ایوب جان بوجھ کر تلوار کی زد میں آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا ہے اور یوں راز راز ہی رہتا ہے۔ حمزہ وہاں سے بھاگ نکلتا ہے اور بازار میں بھاگتے ہوئے ایک درویش سے ٹکرا جاتا ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران حمزہ بے ہوش ہو جاتا ہے اور درویش اسے زینب کے پاس لے آتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پورا واقعہ اسکندریہ ہی میں پیش آیا۔ کچھ دیر بعد پیٹرو کو ایزابیل کی سرائے میں ہی قیام کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ جس لڑکی کی تلاش میں ہے، یعنی زینب، وہ اسی شہر کے ایک یتیم خانے میں کام کرتی ہے۔ رات کو جب پیٹرو یتیم خانے پہنچتا ہے تو زینب اور درویش کے ساتھ حمزہ کو بھی دیکھتا ہے۔
عروج کی بیوی دسپینا اپنی دائی آسیہ کی باتوں میں آ کر ایزابیل پر شک کرنے لگتی ہے کہ وہ عروج پر ڈورے ڈال رہی ہے۔ وہ جھگڑا کرنے کے لیے سرائے پہنچ جاتی ہے، جہاں کافی جھگڑا کرنے کے بعد گھر جاتے ہوئے دسپینا کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ آسیہ اور ایزابیل اسے گھر لاتی ہیں جہاں آسیہ بتاتی ہے کہ دسپینا کی طبیعت بہت خراب ہے اور اس کا حمل ضائع ہو جائے گا۔

آخر میں عروج اور الیاس پوسیدون کے خفیہ ٹھکانے تک پہنچتے ہی اس کے بچھائے گئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد خضر کو بھی پکڑ لیا جاتا ہے۔ ان سب کے سامنے اسحاق آغا کے گلے میں پھانسی کا پھندا ہوتا ہے اور وہ اپنے ایک پیر سے ایک چٹان کے سہارے ٹکے ہوتے ہیں۔ لیکن خضر دراصل نیکو کا استعمال کرتا ہے جو غار کے دہانے پر آگ لگا دیتا ہے۔ کچھ دیر بعد ہزاروں چمگادڑیں کونوں کھدروں سے نکل پڑتی ہیں۔ بحری قزاقوں میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور اس دوران عروج اپنے ساتھیوں کے ساتھ قزاقوں پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ ایک سخت لڑائی کے بعد بالآخر وہ بحری قزاقوں پر غالب آ جاتے ہیں اور قسط کا اختتام اسحاق آغا کے ہاتھوں پوسیدون کے خاتمے سے ہوتا ہے۔