باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار، ایک تاریخی ڈراما، قسط 4
’باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار’ ترکی کی ایک نئی ٹیلی وژن سیریز ہے جو 16 ویں صدی کے چار مشہور بھائیوں خضر، عروج، الیاس اور اسحاق کی داستان ہے۔
جنید آئیسان، اوزان آق سنگور اور اوغوز ایاز کی لکھی گئی اور طوغان امید قراجا اور عدیل ادیب کی ہدایت میں بنائی گئی اس سیریز میں ارطغرل غازی کے کردار سے مشہور ہونے والے اینجن آلتن دوزیاتن نے عروج کا کردار ادا کیا ہے جبکہ خضر یعنی خیر الدین باربروس کے کردار کو اولاش تونا آس تپہ نے نبھایا ہے۔
ڈرامے کی چوتھی قسط کا آغاز خضر کے گھر پر رادکو اور اس کے ساتھیوں کے حملے سے ہوتا ہے، جس کا مطالبہ ہوتا ہے کہ سلیمان استاد کو اس کے حوالے کر دیا جائے۔ اسے تسلیم نہ کیے جانے پر مقابلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں خضر، زینب، اسحاق آغا اور نیکو بہت بہادری سے لڑتے ہیں لیکن وہ استاد سلیمان کو نہیں بچا پاتے جو شہید ہو جاتے ہیں اور رادکو فرار ہو جاتا ہے۔
استاد سلیمان شہادت سے قبل خضر کو وصیت کرتے ہیں کہ وہ ایستر سے ملے اور تمام کتابیں بلکہ ‘ہر کاغذ’ کو بھی ان کے کتب خانے سے نکالے۔
دوسری جانب عروج اور شاہین بے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں اور کسی بھی لمحے لڑائی شروع ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے جب عروج کو افق پر ایک جہاز ابھرتے ہوئے نظر آتا ہے جو دراصل پیٹرو کا ہوتا ہے۔ خود پیٹرو بھی دوربین سے دیکھتا ہے کہ جس جگہ وہ ابو محمد کو لینے پہنچے ہیں وہاں ایک نہیں بلکہ دو جہاز ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے جتنے قریب ہیں، اس سے لگتا ہے کہ ایک دوسرے پر حملے کی تیاری میں ہیں۔ اس لیے پیٹرو کہتا ہے کہ ان دونوں کو آپس میں لڑنے دیا جائے تاکہ انہیں بعد میں صرف ایک فریق کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ڈیاگو اسے سمجھاتا ہے کہ انہیں ابو محمد صحیح سلامت چاہیے، اس لیے پیٹرو قریب آنے کے بجائے جہاز کو روانگی کا حکم دے دیتا ہے۔ شاہین بے بھی مقابلہ نہ ہوتے دیکھ کر عروج کے اغوا شدہ جہاز کے ساتھ کوچ کر جاتا ہے۔
عروج کے ساتھی اس سے پوچھتے ہیں کہ آخر حملے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ تو عروج کہتا ہے کہ شاہین پورے منصوبے کے ساتھ آیا تھا اور اسے افق پر ایک دوسرا جہاز بھی آتے ہوئے نظر آیا جو شاہین کے ساتھیوں کا نہیں تھا۔ لازماً ٹیو نے ابو محمد کو جن لوگوں کے حوالے کرنا تھا، انہی کا ہوگا۔ وہ کتنے اسلحے سے لیس تھے اور کتنے طاقتور تھے، اس کا بالکل علم نہیں۔ اس صورت حال میں اگر ہم شاہین پر حملے کا حکم دیتے تو وہ کچھ ہی دیر بعد وہ جہاز پہنچ جاتا اور شاید ہم میں سے کوئی نہ بچ پاتا۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمارے ساتھی شاہین بے کی قید میں ہیں، ایسی جنگ میں اترنا جہاں یقینی شکست سامنے ہو، بہادری نہیں حماقت ہے۔
الیاس کہتا ہے کہ کاش ہم پوسیدون سے مقابلے میں ہی مارے جاتے تو آج یہ ذلالت نہ دیکھنا پڑتی، لیکن عروج اسے یقین دلاتا ہے کہ شاہین سے جلد یا بدیر حساب ضرور لیا جائے گا۔
جعفر ایزابیلا کے والد سلویو کے پاس آتا ہے، جو اسے کہتا ہے کہ وہ عروج کو تھالی میں رکھ کر جعفر کے سامنے پیش کرے گا۔ سلویو اپنا منصوبہ کھل کر بیان کرتا ہے کہ ہمارا مقصد عروج اور شاہین بے کے درمیان کسی بھی اتحاد کے امکان کو روکنا ہے۔ "عروج ہمارا آج کا اور شاہین ہمارا کل کا دشمن ہے۔ اس لیے بچے گا کوئی بھی نہیں۔” سلویو کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے دیکھ کر جعفر حیران رہ جاتا ہے۔
مدلّی میں سلیمان استاد کے کتب خانے کی صفائی کے دوران خضر کو ایک خفیہ جگہ پر وہی نشان نظر آتا ہے جو خضر کو درویش سے ملنے والی انگوٹھی میں ہوتا ہے۔ خضر کو سلیمان استاد کی شہادت سے قبل ‘ہر کاغذ’ نکالنے کی بات بھی یاد آتی ہے جس پر وہ کاغذات نکالتا ہے جن پر بھی وہی نشان بنا ہوتا ہے۔ وہ الماری میں لگے ایک نشان کو گھماتا ہے تو ایک خفیہ دروازہ کھل جاتا ہے اور اندر سے وہ کتاب نکلتی ہے جس کی حفاظت سلیمان استاد کیا کرتے تھے۔
عروج بے اور الیاس اسکندریہ خالی ہاتھ واپس پہنچتے ہیں جبکہ شاہین بے ابو محمد اور عروج کے مغوی ساتھیوں کے ساتھ ایک دُور دراز علاقے پہنچ جاتا ہے۔
عروج خیرہ بے سے کہتا ہے کہ وہ شاہین بے کا ٹھکانہ پتہ کرے اور اسے بتائے، معاملہ جتنا خفیہ رہے اتنا بہتر ہے کیونکہ اگر یہ بات کھلی تو وہ بہت بدنام ہوگا۔ قلیچ بے بھی اپنے بیٹے کی تلاش میں بندے بھیجتے ہیں۔
بہرحال، عروج سرائے پہنچتا ہے جہاں وہ ایزابیلا کو بتا ہی رہا ہوتا ہے کہ وہ اس کا دیا گیا جہاز کھو بیٹھا ہے کہ سلویو آ جاتا ہے اور عروج سے سخت لہجے میں بات کرتا ہے۔ عروج آخر میں کہتا ہے کہ وہ یا تو جہاز واپس کر دے گا یا اس کی پوری قیمت ادا کرے گا۔ وہ یہ کہہ کر واپس نکل ہی رہا ہوتا ہے کہ شاہین بے کا ایک نمائندہ سرائے پہنچ جاتا ہے اور سلویو سے کہتا ہے کہ شاہین بے نے آپ کا جہاز واپس کر دیا ہے اور پیغام دیا ہے کہ ایسے لوگوں کو جہاز مت دیا کریں جو اسے سنبھال ہی نہیں سکتے۔
عروج سخت غصے کے عالم میں سرائے سے نکل جاتا ہے۔
کتاب ملنے کے بعد خضر فوری طور پر اسکندریہ جانے کا فیصلہ کرتا ہے اور اسحاق آغا بھی کہتے ہیں کہ وہ ساتھ چلیں گے۔ خضر سمجھ جاتا ہے کہ اسحاق آغا محض اس لیے مدلّی چھوڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یورگو یہاں سے بھاگنے کے بعد ایک ہی جگہ جا سکتا ہے، اسکندریہ میں اپنی بیٹی دسپینا کے گھر۔ البتہ اسحاق آغا کہتے ہیں کہ وہ حمزہ سے بہت مانوس ہو گئے ہیں اور صرف حمزہ کے لیے اسکندریہ جا رہے ہیں۔
کلیمنوس میں پیٹرو کو اطلاع دی جاتی ہے کہ سلیمان استاد کو قتل کر دیا گیا ہے اور کتاب کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیں جلد از جلد یہ پتہ چلانا ہوگا کہ آخر ابو محمد کس کے پاس ہے۔
پیٹرو کو پتہ چلتا ہے کہ ان دو جہازوں میں سے ایک عروج کا تھا اور ایک شاہین بے کا۔ عروج کے بارے میں اسے بتایا جاتا ہے کہ اسی نے انتوان یعنی پوسیدون کو مارا تھا۔ جس پر پیٹرو کہتا ہے کہ انتوان واقعی مر گیا ہے؟ اگر نہیں تو اسے کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لایا جائے۔
اسکندریہ میں یورگو اپنی بیٹی دسپینا کے سامنے صفائیاں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے آنے کی اطلاع عروج کو نہیں ملنی چاہیے۔ دوسری جانب جعفر عروج کی خبریں پانے کے لیے دائی آسیہ کا استعمال کرتا ہے۔
خیرہ بے شاہین کے ٹھکانے کا پتہ چلانے کے بعد اس کی اطلاع عروج کو دیتا ہے جو اپنے ساتھیوں کو کوچ کا حکم دیتا ہے۔ آمنے سامنے کے بعد عروج شاہین بے کو للکارتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس دوران ابو محمد اپنے ہاتھوں کی رسی کاٹ کر خیمے کے پیچھے سے نکل جاتا ہے۔
عروج اور شاہین کی لڑائی اپنے عروج پر پہنچتی ہے اور عین اس وقت قلیچ بے خود بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عروج سے کہتے ہیں کہ "میرے بیٹے نے بڑی غلطی کی ہے، لیکن اگر تم اس غلطی سے زیادہ میرا احترام کرتے ہو تو اسے معاف کر دو۔” شاہین بے بھڑک اٹھتا ہے کہ آپ اس سے معافی کیوں مانگ رہے ہیں؟ مجھے اس سے لڑنے دیں۔ جس پر قلیچ بے کہتے ہیں کہ یہ جنگجو دماغ عروج کا جہاز چوری کرتے وقت کہاں تھا؟
اس موقع پر قلیچ بے اعلان کرتے ہیں کہ میرا حقیقی بیٹا عروج ہے اور شاہین سے میرا کوئی تعلق نہیں۔
رادکو پیٹرو کو کو اطلاع دیتا ہے کہ خضر اور اس کا خاندان مدلّی سے نکل کر اسکندریہ روانہ ہو گیا ہے۔ جس پر پیٹرو کہتا ہے کہ گھات لگا کر خضر کو پکڑو، کتاب اسی کے پاس ہے۔ سلیمان استاد کتاب کسی با اعتماد شخص کے حوالے کیے بغیر نہیں مر سکتے۔ اور کہا کہ "خضر کے بعد اب ہمارا اگلا ہدف عروج ہوگا۔”
پیٹرو بھیس بدل کر اسکندریہ میں سرائے پر حملہ کرتا ہے اور تمام محافظوں اور ملازمین کو ٹھکانے لگانے کے بعد سلویو کو پکڑ لیتا ہے۔ وہ سلویو کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور کہتا ہے کہ آخر اس نے عروج کو جہاز کیوں دیا؟ اس موقع پر پیٹرو کہتا ہے کہ "میرا مقصد ان سمندروں کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے۔ وہ تمام جزیرے جو سلطان محمد فاتح نے ہم سے چھینے تھے، واپس لینا ہے۔”
عین اسی موقع پر ایزابیل بھی کمرے میں آ جاتی ہے، جس پر سلویو جھوٹ بول کر پیٹرو کا تعارف کرواتا ہے کہ یہ ایک تاجر الفانسو ہے۔
بعد ازاں سلویو ایزابیل کو کہتا ہے کہ آج سے عروج کو کوئی کام نہیں دیا جائے گا، بلکہ وہ بھی اس سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کرے گی بلکہ دُور سے بھی اسے دیکھتی نظر نہ آئے۔ جس پر ایزابیل ناراض ہو کر کمرے سے نکل جاتی ہے۔
ان حالات میں ایک روز عروج اسکندریہ کی بندرگاہ پر اپنے خیالوں میں ہوتا ہے کہ اس کی ملاقات کی درویش سے ہو جاتی ہے۔ وہ اسے کچھ ہدایات دیتا ہے اور عروج بھی انہیں اپنے ارادوں سے آگاہ کرتا ہے۔
اگلے روز جب عروج جہاز خریدنے کے نکلتا ہے تو ہر شخص اسے جہاز کی قیمت چار گُنا زیادہ بتاتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ انہیں کسی نے ہدایت کی ہے کہ عروج کو جہاز نہ بیچا جائے۔ راستے میں درویش عروج کو پھر مل جاتے ہیں کہتے ہیں کہ آپ پر جال پھینکا گیا ہے، آپ کو اس جال کو سمجھنا ہوگا کیونکہ سمندر ایک اصل سلطان کا منتظر ہے۔ عروج سخت پریشانی کے عالم میں ہوتا ہے اس لیے درویش سے کہتا ہے کہ یہ ایسی باتوں کا وقت نہیں ہے، ہمیں مزید مشکل میں نہ ڈالیں۔ جس پر درویش کہتے ہیں کہ اصل کپتان کون ہے؟ اس کا پتہ تو طوفانوں میں چلتا ہے۔ اپنے دل کے طوفان کو دیکھیں، وہ آپ کی درست سمت میں رہنمائی کرے گا اور آپ کی حکومت سمندروں پر ظاہر ہوگی۔
عروج گزشتہ مہم کی کمائی سے اپنی بیوی دسپینا کو ایک ہار دیتا ہے جبکہ ایزابیل کو بھی ایک کنگن تحفے میں دیتا ہے۔ دسپینا کو جب پتہ چلتا ہے کہ انہیں کوئی جہاز فروخت کرنے کو تیار نہیں تو وہ افسردہ ہو جاتی ہے اور بعد میں اپنا ہار واپس کرنے کے لیے جوہری کے پاس پہنچ جاتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ یہ ہار خریدنے کا وقت نہیں، بس میرا دل رکھنے کے لیے شوہر نے خرید لیا تھا۔ جوہری کہتا ہے کہ آپ چاہیں تو میں کنگن بھی واپس لے سکتا ہے۔ دسپینا کنگن کا ذکر سن کر حیران ہو جاتی ہے لیکن کچھ ہی دیر میں سمجھ جاتی ہے کہ کوئی کنگن کا چکر بھی ہے۔
گھر واپس جاتے ہوئے راستے میں دسپینا کو عروج ملتا ہے تو وہ اس سے جھگڑا کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس نے ہار جوہری کو واپس کر دیا ہے۔ اس سے ملنے والے پیسے عروج کے قدموں میں پھینکنے کے بعد وہ کہتی ہے کہ اب تمہاری مرضی ہے، ایزابیل کے لیے خریدا ہوا کنگن واپس کرتے ہو یا نہیں۔
اُدھر ایزابیل اپنے والد کے رویّے سے سخت عاجز آنے کے بعد جعفر کو بلاتی ہے اور کہتی ہے کہ سالونیکا کی مہم اس سے لے کر عروج کو دی جا رہی ہے۔ سلویو اس پر بہت خفا ہوتا ہے اور جھگڑے کے دوران ایزابیل کہتی ہے کہ میں اپنے بھائی کو ہر قیمت پر بچاؤں گی اور مجھے کوئی روک نہیں سکتا، جس پر سلویو اسے تھپڑ مارتا ہے۔
عروج ایزابیل سے ملاقات میں اس سے ‘اونیتا’ کے بارے میں پوچھتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اس تنظیم کے بارے میں معلومات اکٹھی کرے کہ اس کے پسِ پردہ مقاصد کیا ہیں۔
جب عروج گھر پہنچتا ہے تو دسپینا وہاں موجود نہیں ہوتی اور جب وہ گھر پہنچتی ہے تو عروج ایک خط چھوڑ کر جا چکا ہوتا ہے، جس میں وضاحت ہوتی ہے کہ وہ کنگن دراصل کام کے احسان کا بدلہ تھا۔
سالونیکا مہم کے لیے جہاز پر سامان لادنے کے دوران جعفر شاہین بے کے ساتھ سازش کر کے اپنے بندے عروج کے جہاز میں گھسا دیتا ہے اور سامان میں بارود رکھ دیتا ہے۔ عروج کو بتایا جاتا ہے کہ سامان میں کچھ قلیچ بے کا مال بھی ہے اور ان کے بندے بھی ہیں جو گودام ہی میں سوئیں گے، جس پر عروج کو کچھ شک ہو جاتا ہے۔
رادکو اسکندریہ کے راستے ہی میں خضر کے جہاز کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ یہاں وہ جہاز کے کپتان سے مدلّی کے مسافروں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن خضر اور نیکو سمندر میں چھلانگ مار کر تیرتے ہوئے رادکو کے جہاز تک پہنچتے ہیں اور چند اوزاروں کی مدد سے اس کے پیندے میں سوراخ کر دیتے ہیں۔ جب رادکو خضر اور مدلّی کے دیگر مہمان نہ دیے جانے پر حملے کا حکم دیتا ہے تو پہلا گولا داغتے ہی جہاز کو دھچکا لگتا ہے، کیونکہ اس کے پیندے میں خاصا پانی گھس چکا ہوتا ہے۔ جواب میں خضر کا جہاز گولا داغتا ہے تو دشمن کے جہاز کے بالائی حصے میں لگتا ہے اور تب تک پیندے میں اتنا پانی گھس چکا ہوتا ہے کہ اس کے لیے توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انتوان عرف پوسیدون کو پیٹرو کی قید میں دکھایا جاتا ہے۔ وہ پوسیدون کو کہتا ہے کہ "تمہیں میں نے زندہ گیا ہے، پوسیدون مر گیا، اب تم نئے نام سے میرا سپاہی بننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔”
آخر میں جعفر جیسے ہی جہاز کے گودام میں آگ لگانے کے لیے بارود پھیلا کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے، عروج گودام کے دروازے پر پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد جعفر کے کارندوں اور عروج کے ساتھیوں میں زبردست لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور تیسری قسط اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔