باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار، ایک تاریخی ڈراما، قسط 6

0 507

‏’باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار’ ترکی کی ایک نئی ٹیلی وژن سیریز ہے جو 16 ویں صدی کے چار مشہور بھائیوں خضر، عروج، الیاس اور اسحاق کی داستان ہے۔

جنید آئیسان، اوزان آق سنگور اور اوغوز ایاز کی لکھی گئی اور طوغان امید قراجا اور عدیل ادیب کی ہدایت میں بنائی گئی اس سیریز میں ارطغرل غازی کے کردار سے مشہور ہونے والے اینجن آلتن دوزیاتن نے عروج کا کردار ادا کیا ہے جبکہ خضر یعنی خیر الدین باربروس کے کردار کو اولاش تونا آس تپہ نے نبھایا ہے۔

آج ہم اس کی چھٹی قسط کی کہانی آپ کے سامنے بیان کریں گے۔ پانچویں قسط بہت ہی سنسنی خیز مرحلے پر ختم ہوئی تھی اور اس قسط کا آغاز بھی اسی ہیجان انگیزی کے ساتھ ہوتی ہے بلکہ اسے اگر اب تک کی سب سے زبردست قسط کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جس میں کہانی کئی پیچ و خم کھاتی ہے اور بالآخر ایک بار پھر ایک دلچسپ موڑ پر خم ہوتی ہے۔


سب سے پہلے تو یتیم خانے میں اسحاق آغا سلویو اور اس کے کارندوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے اور ایزابیل کو حوالے نہیں کریں گے۔ کشیدہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایزابیل خود اپنے باپ کی بندوق کے سامنے آ جاتی ہے اور کہتی ہے ان بچوں کو خوف زدہ نہ کریں، میں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔


اُدھر کالا قزاق کا سامنا کرتے ہوئے عروج کے جہاز پر ابتدا میں دو گولے لگتے ہیں، جن سے کوئی بڑا نقصان تو نہیں ہوتا لیکن تیسرے گولے کے لگتے ہی نیچے گودام میں موجود بارود کے ڈبوں میں آگ لگ جاتی ہے اور زبردست دھماکوں کے ساتھ جہاز دو میں تقسیم ہو کر ڈوب جاتا ہے۔ عملے کے بیشتر اراکین مارے جاتے ہیں اور صرف عروج اور اس کے قریبی ساتھی ہی بچ پاتے ہیں۔ الیاس ایک جال میں الجھ کر ڈوبنے ہی والا ہوتا ہے کہ عروج اس کی مدد کر کے اسے نکال لیتا ہے لیکن وہ شدید زخمی ہوتا ہے۔


تیسری جانب رادکو جیسے ہی خضر پکڑتا ہے اسے جنگل میں کسی کی آمد کی آوازیں آتی ہیں۔ وہ خضر اور نیکو کو وہیں چھوڑ کر صرف ایستر کے ساتھ فرار ہو جاتا ہے۔ خضر اور نیکو کو بچانے والے وہ لڑکے ہوتے ہیں جن کی ایستر مدد کرتی رہتی ہے۔ وہ دونوں کو ایستر کے گھر لاتے ہیں جہاں زخمی خضر سخت پریشان ہوتا ہے کیونکہ نہ صرف ایستر اغوا ہو چکی تھی، بلکہ اس کے ساتھ کتاب بھی ہاتھوں سے جا چکی تھی۔


پچھلی قسط کے آخری سنسنی خیز لمحات کی گتھی سلجھانے کے بعد اب کہانی دوبارہ اپنی روانی پر آتی ہے۔ سلویو ایزابیل کو سختی سے ڈانٹتا ہے اور دھمکاتا ہے کہ اگر وہ اپنے بھائی کی زندگی چاہتی ہے تو اپنی حرکتیں چھوڑدے اور عروج سے دُور رہے۔

بہرحال، پھر ہمیں اسحاق آغا کی سرائے آمد دکھائی جاتی ہے۔ وہ سلویو کے کمرے تک پہنچ جاتے ہیں اور اسے دھمکاتے ہیں کہ میں نے تمہاری بیٹی کو محض اس لیے جانے دیا کیونکہ وہ خود جانا چاہتی تھی، لیکن اگر کسی اور کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو تمہارا خاتمہ کر دوں گا۔

یہاں سلویو کے کارندے اسحاق آغا کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ انہیں پیٹ کر رکھ دیتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے سرائے سے نکل جاتے ہیں کہ میرے پاس اب کھونے کے لیے کچھ نہیں، میرے لیے مرنا یا مارنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر تمہیں اپنی زندگی پیاری ہے تو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا۔ تمہاری ایک غلطی تمہیں تباہی کے گڑھے میں ڈال دے گی۔

اسی دوران سرائے میں ایک اہم مملوک شخصیت کا قتل ہو جاتا ہے، جس کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ سلطنت کے محافظوں کے سربراہ تھے۔ خیرہ بے کے مطابق ان کی آمد مکمل طور پر خفیہ تھی، تو کسی کو پتہ کیسے چلا اور ان کا قتل ہوا؟

خیرہ بے معاملے کی تحقیقات کے سلسلے میں سرائے پہنچتا ہے جہاں اس کی ایزابیل کے ساتھ کافی تلخ کلامی ہوتی ہے۔


اُدھر عروج اور اس کے ساتھیوں کو ایک ویران جزیرے پر پہنچتے دکھایا جاتا ہے۔ الیاس کے سینے پر ایک گہرا زخم آیا ہے اور منجم اور دیگر لوگ علاج کی کوشش کرتے ہیں۔


خضر ایستر کے گھر سے نکلنے کے بعد سیدھا ایزابیل کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ ایستر کو بچآنے کے لیے وہ اس کی کچھ مدد کرے۔ وہ سرائے میں آنے والے مہمانوں اور جہازوں کی آمد و رفت کے بارے میں معلومات چاہتا ہے لیکن ایزابیل اپنے حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہے اور کہتی ہے کہ میں کوئی مدد نہیں کر سکتی۔


اس کے بعد خضر اور نیکو یتیم خانے پہنچتے ہیں جہاں خضر درویش بابا سے کہتا ہے کہ آپ سے ملنے کے بعد استاد سلیمان کا قتل ہو گیا۔ میں نے آپ سے ایستر کے بارے میں پوچھا تو ایستر اور کتاب دونوں میرے ہاتھ سے نکل گئے۔ آپ جہاں جاتے ہیں، وہاں موت آ جاتی ہے۔ آپ کس قسم کے درویش ہیں؟ مجھے حقیقت بتائیں۔ آج سلیمان استاد کی امانت مجھ سے کھو گئی۔ میں ان کی وصیت پر عمل نہیں کر پایا۔ آج رات آپ کو سب کچھ بتانا ہوگا۔ جس پر درویش جواب دیتے ہیں کہ تم انڈے کو توڑنا چاہ رہے ہو جبکہ ابھی اس کے ٹوٹنے کا وقت نہیں آیا۔ جو چوزہ وقت سے پہلے انڈے سے باہر نکل آئے، وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہتا۔ جس پر خضر انہیں دیوانہ کہہ کر سرائے سے نکل جاتا ہے۔ نیکو، اسحاق آغا اور دسپینا بھی اس کے ساتھ یتیم خانہ چھوڑ کر اپنے گھر آ جاتے ہیں۔


اُدھر انتوان جو اب کالا قزاق بن چکا ہے، کلیمنوس پہنچتا ہے تو بجائے شاباشی کے اسے پیٹرو کے غضب کا نشانہ بننا پڑتا ہے جو کہتا ہے کہ تم عروج کی لاش دیکھے بغیر یہاں کیسے آ گئے؟ جب وہ کہتا ہے کہ کچھ بچا ہی نہیں تھا، سب کچھ تباہ ہو گیا تھا۔ لیکن پیٹرو اس پر سخت ناراض ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ جہاز کے ہر ہر شخص کو نیزے مار کر تصدیق کرنی چاہیے تھی کہ وہ مرا یا نہیں۔ پھر پیٹرو قسم کھاتا ہے کہ وہ عروج کو ختم کر کے دم لے گا۔


جزیرے پر عروج اور اسکندر سمندر میں تیرتے ملبے سے پانی کے کچھ ڈرم نکال کر لاتے ہیں۔ دوسرے ساتھی مچھلیاں پکڑ کر انہیں پکاتے ہیں اور الیاس کی حالت سنبھلنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اس جزیرے سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا ہو سکے۔ اس دوران عروج ایک حیران کن خواب دیکھتا ہے، جس میں وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو عثمانی فوج کے ہمراہ ایک جنگ میں شریک دیکھتا ہے۔ الیاس اور اس کے دیگر ساتھی شہید ہو جاتے ہیں اور غم کی کیفیت میں اسے فتح کا پرچم لیے ایک گھڑ سوار نظر آتا ہے۔ عروج اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اس پرچم بردار کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ عروج ان سے سوال کرتا ہے کہ آپ کون ہیں اور یہ پرچم لیے کہاں جا رہے ہیں؟ تو وہ سوار کہتا ہے کہ اس پرچم کو تھامنے والے ہاتھ وہی ہیں، جنہوں نے تمہارے والد کو یہ پرچم دیا تھا اور اب میں اسے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کی تکمیل کے لیے لے جا رہا ہوں۔ جس پر عروج اپنا ہاتھ سینے پر رکھ کر اور سر جھکا کر کہتا ہے فاتح سلطان محمد خان!

سلطان محمد فاتح عروج سے سوال کرتے ہیں کہ تم پریشان کیوں ہو؟ عروج جواب دیتا ہے ہم دیواروں سے آگے نہیں جا سکتے، قلعے پر اپنا جھنڈا نہیں لہرا سکتے، بس یہی میری پریشانی کی وجہ ہے۔ جس پر سلطان فاتح کہتے ہیں کہ تمہیں دراصل اندر کی دیواروں کی مضبوطی پریشان کر رہی ہے، پہلے ان سے باہر نکلو۔ اپنے اندر کی دیواروں سے نکلنے والے بہادر کو دنیا کی کوئی دیوار نہیں روک سکتی۔

سلطان مزید کہتے ہیں کہ دشمن کے پاس ہزاروں حیلے ہیں اور ہم ان کا سامنا کرنے کے کئی طریقے جانتے ہیں۔ جس پر عروج کہتا ہے کہ میرے ساتھی اور بھائی شہید ہو گئے، فوج برباد ہو گئی۔ دشمن نے تمام راستے بند کر دیے ہیں، ہم نیا راستہ کیسے تلاش کریں؟ جس پر سلطان فاتح کہتے ہیں اگر تمام راستے بند ہو گئے ہیں تو سمندروں کا پانی کس کام کا؟ ہمارے جہاز ہمیں فتح دلائیں گے۔ جس پر عروج زنجیر کے ذریعے خلیج بند ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارے جہاز وہاں سے کیسے گزر سکتے ہیں؟ اس پر سلطان فاتح کہتے ہیں کہ ہم زمین کو سمندر میں اور پہاڑوں کو لہروں میں بدل دیں گے اور جہازوں کو وہاں سے گزاریں گے۔

پھر دونوں کو فتحِ قسطنطنیہ کا وہ تاریخی لمحہ نظر آتا ہے جب خشکی پر جہاز چلے تھے۔

سلطان مزید کہتے ہیں کہ یہ محض ایک شہر کی فتح کی بات نہیں، یہ بات ہے جدوجہد کرنے اور دشمن کی چالوں کے سامنے ہار نہ ماننے کی۔ جب سب کچھ ختم ہوتا نظر آئے، وہیں سے بات شروع کرنے کی۔ یہ بات ہے اس آدمی کی جو اپنے اندر کی دیواریں گرا دے، اس کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہیں رہ سکتی۔ دشمن کے سپاہیوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہے گی، ان کی دیواریں ہمیشہ مضبوط رہیں گی لیکن ہماری کوشش، حکمت اور ہمت اس سے بھی زیادہ توانا اور مضبوط ہوگی۔ جہاں ان کے خواب بھی نہ پہنچیں، ہماری تعبیر وہاں پہنچے۔ ہم نے زمین پر جہازوں کو چلایا ہے اور تم اپنے جہازوں سے پانیوں پر حکومت کرو گے۔ جاؤ دنیا پر اپنی فتوحات کے پرچم لہراؤ!

یہ کہہ کر سلطان اپنا پرچم عروج کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ پرچم کو چوم کر کہتا ہے بحیرۂ روم پر حکمرانی آپ کے عظیم مقاصد میں سے ایک تھا۔ میں نے سمندروں کی تلوار بننے کا حلف اٹھایا تھا اور اب میں ایک اور عہد کرتا ہوں کہ چاہے دشمن پہاڑوں کی طرح آئے، لہروں کی طرح تنگ کرے لیکن میں اپنے خون کے آخری قطرے تک جدوجہد جاری رکھوں گا۔

اس کے بعد دونوں اپنی تلواریں سونت لیتے ہیں اور عروج کی آنکھ کھل جاتے ہے۔ ایسا خواب دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات نظر آتے ہیں۔ وہ فوراً اپنے ساتھیوں کو جمع کرتا ہے اور کہتا ہے اب ہم مزید انتظار نہیں کریں گے، فوراً کچھ کرنا ہوگا۔


اُدھر اسکندریہ میں ایزابیل خضر کو سرائے میں بلاتی ہے اور اسے اطلاع دیتی ہے کہ عروج اپنی منزل یعنی سالونیکا نہیں پہنچا، لگتا ہے اس کے جہاز کو حادثہ پیش آیا ہے اور شاید وہ اس میں مر گیا ہے۔ خضر کہتا ہے اگر میرے بھائی اس مارے گئے ہیں تو لاشیں ضرور ان کے حوالے کرنی چاہئیں، جب تک ایسا نہیں ہوتا وہ ان کے مرنے کا یقین نہیں کرے گا۔ وہ ایزابیلا سے جہاز مانگتا ہے لیکن اس مطالبے کو پورا کرنا اُس کے بس میں نہیں ہوتا۔

خضر قلیچ بے کے پاس پہنچتا ہے انہیں عروج کے جہاز کو پیش آنے والے حادثے کے بارے میں بتاتا ہے اور یہ بھی کہ ابھی تک عروج اور ساتھیوں کی لاشیں نہیں ملیں۔ ہمیں ان کی فوری تلاش کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم آپ کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگ سکتے۔ جس پر قلیچ بے کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو دیکھتے ہیں۔

بعد ازاں وہ شاہین بے کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عروج جیسے بہادر کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ شاہین بے کے بہانے تراشنے کے باوجود قلیچ بے یہی کہتے ہیں کہ بنا انتظار کیے اس کی تلاش میں نکلو۔

یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آتا ہے، ایک شخص ہمیں قلیچ بے کے پاس دکھائی دیتا ہے اور قلیچ بے اسے کہتے ہیں بیٹا! ہمیں یہ خبر کہیں اور سے کیوں ملی؟ تم کہاں تھے؟ جس پر وہ شرمندگی سے کہتا ہے کہ قلیچ بے! میں عروج کے بھائیوں اور ایزابیل کے پاس گیا ہوا تھا۔ اس لیے آپ سے ملنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں ایزابیل کے ساتھ کام کرنے والا غلام ہوتا ہے۔

بہرحال، خضر واپس گھر پہنچ کر اسحاق آغا کو عروج کے جہاز کو پیش آنے والے حادثے کے بارے میں بتاتا ہے۔ یہاں اسحاق بے کو پہلی بار روتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے بھائی کے حوالے سے ان کی سرد مہری اب گرم جوشی میں بدل رہی ہے۔


اُدھر جزیرے پر عروج کے ساتھی ادھر ادھر سے لکڑیاں جمع کر کے کوئی کشتی بنانے کا آغاز کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں حوروزجو غصے کے عالم میں ایک مرتبہ پھر جعفر کو پکڑ لیتا ہے اور اسے مارنے ہی والا ہوتا ہے کہ عروج اسے روک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم یہاں سے نکلنے کے بعد اِس کتے اور اس کے مالک کا پتہ چلائیں گے۔


رادکو کتاب اور ایستر کے ساتھ کلیمنوس پہنچ جاتا ہے جہاں اسے پیٹرو سے خوب شاباشی بھی ملتی ہے۔ بعد ازاں، پیٹرو قید خانے میں ایستر سے ملتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ یہ کتاب مجھے سمجھ نہیں آ رہی، اسے سمجھنے میں تم میری مدد کرو گی۔


اسکندریہ میں قلیچ بے عروج کے گھر پہنچتے ہیں اور گھر والوں کو بتاتے ہیں کہ ان کا جہاز عروج کی تلاشی کے لیے جائے گا۔ خضر اور نیکو قلیچ بے کے حکم پر شاہین بے کے جہاز پر ان کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ راستے میں انہیں ماہی گیر بتاتے ہیں کہ عروج اور ان کے ساتھیوں نے گاؤں کو حملہ آوروں سے بچانے میں ان کی مدد کی تھی۔ بعد میں ان کا جہاز ایک دھماکے سے پھٹ گیا تھا۔ ہم نے بہت تلاش کیا لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں ملا، البتہ ان کا ایک زخمی ہمارے پاس ہے۔ جب وہ اس زخمی سے ملنے گاؤں پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے وہ تو اصل میں شاہین بے کا ایک کارندہ تھا جو اس جہاز کو تباہ کرنے کے لیے بھیجے گئے بندوں میں سے ایک تھا لیکن کیونکہ وہ اسی جہاز میں سے نکلا تھا اس لیے گاؤں کے لوگ اسے عروج کا ساتھی سمجھ کر لے آئے۔ شاہین بے اسے ایک طرف لے جا کر سخت سُست کہتا ہے اور غصے میں اسے ایک گھونسا بھی جڑ دیتا ہے۔

اس پر خضر شاہین بے کو کہتا ہے کہ تم نے عروج کے ساتھی کو کیوں مارا؟ شاہین جواب دیتا ہے کہ یہ عروج کا ساتھی نہیں، بلکہ ان لوگوں میں سے ایک تھا جس نے ان کے خلاف جال بچھایا۔ یہاں پر دونوں کے درمیان سخت کلامی ہوتی ہے۔ نیکو خضر سے کہتا ہے کہ میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ ہم شاہین پر بھروسا نہیں کر سکتے۔


عروج چند پرندوں کو اڑتا دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ کوئی زمینی علاقہ قریب ہی ہے اس لیے وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تیر کر جزیرے سے نکل جاتا ہے۔ راستے میں انہیں ایک جہاز ملتا ہے، جس سے وہ مدد طلب کرتے ہیں لیکن اس جہاز کا عملہ انہیں پہچان لیتا ہے اور پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں لڑائی چھڑ جاتی ہے اور کچھ ہی دیر میں یہ جہاز عروج کے قبضے میں ہوتا ہے۔ اس کامیابی کے بعد عروج کہتا ہے کہ ہمیں محتاط رہنا ہوگا، کیونکہ ہماری تلاش میں نکلنے والوں میں صرف یہی ایک جہاز نہیں ہوگا۔ اس جہاز پر عروج کے ساتھیوں کو چند قیدی بھی ملتے ہیں، جنہیں وہ جہاز چلانے میں مدد کے عوض رہا کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ بہرحال، وہ جزیرے پر پہنچ کر ابھی سب ساتھیوں کے ساتھ نکل ہی رہے ہوتے ہیں کہ کئی قزاق جزیرے پر آ پہنچتے ہیں۔ ابھی ان سے لڑائی جاری ہوتی ہے کہ کئی قزاق نامعلوم سمت میں آنے والے تیروں سے مر جاتے ہیں اور پھر ایک نیا گروہ نمودار ہوتا ہے۔


قید کے دوران ایستر اپنے ہاتھ کی صفائی سے ایک سوئی نکال لیتی ہے اور بعد میں اس کی مدد سے اپنی ہتھکرڑی اور قید خانے کا دروازہ کھول لیتی ہے۔ لیکن بھاگنے کی کوشش کے دوران پکڑی جاتی ہے اور اسے دوبارہ قید کر لیا جاتا ہے۔


اسحاق آغا عروج کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی اطلاع بالآخر دسپینا کو دیتے ہیں اور حسبِ توقع اس کا تمام تر غصہ ایزابیل پر ہی نکلتا ہے اور وہ کہتی ہے کہ اس نے جان بوجھ کو عروج کو اس جال میں پھنسایا۔ وہ سرائے پہنچ جاتی ہے اور ایک مرتبہ پھر ایزابیل سے الجھ پڑتی ہے۔


قسط کے اختتام پر ہمیں خضر کو اس جزیرے کے قریب دکھایا جاتا ہے جہاں عروج اور اس کے ساتھی ہوتے ہیں۔ وہ دُور بین سے دیکھتا ہے تو اسے کچھ لوگ لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ شاہین بے سے کہتا ہے کہ ہمیں اس طرف جانا چاہیے، لیکن وہ انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں قزاقوں کی لوٹ مار چل رہی ہے، ہمیں ان کے جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ جس پر خضر کہتا ہے کہ میرے بھائی لاپتہ ہیں، میں ان کے سراغ کے لیے جھگڑے میں بھی پڑوں گا۔ شاہین بے پھر بہانے تراشنا شروع ہو جاتا ہے کہ اس جہاز پر مزید لوگ بھی ہیں، سب کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا ٹھیک نہیں۔ پھر یہ طعنہ بھی مارتا ہے کہ یہ جہاز تمہارا نہیں ہے۔ یہ سن کر خضر شاہین کا گریبان پکڑ لیتا ہے کہ آخر تم ہمارے دوست ہو یا دشمن؟ جب شاہین بے ٹس سے مس نہیں ہوتا تو خضر کہتا ہے میں قلیچ بے کی بڑی عزت کرتا ہوں، لیکن تمام تر احترام کے باوجود تمہارے ساتھ وہ کروں گا جس کے تم حقدار ہوں۔ دونوں ایک دوسرے پر تلوار سونت لیتے ہیں جبکہ جزیرے پر عروج کے تمام ساتھی بحری قزاقوں کے نرغے میں نظر آتے ہیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: