باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار، ایک تاریخی ڈراما، قسط 7

0 331

‏’باربروس: بحیرۂ روم کی تلوار’ ترکی کی ایک نئی ٹیلی وژن سیریز ہے جو 16 ویں صدی کے چار مشہور بھائیوں خضر، عروج، الیاس اور اسحاق کی داستان ہے۔
جنید آئیسان، اوزان آق سنگور اور اوغوز ایاز کی لکھی گئی اور طوغان امید قراجا اور عدیل ادیب کی ہدایت میں بنائی گئی اس سیریز میں ارطغرل غازی کے کردار سے مشہور ہونے والے اینجن آلتن دوزیاتن نے عروج کا کردار ادا کیا ہے جبکہ خضر یعنی خیر الدین باربروس کے کردار کو اولاش تونا آس تپہ نے نبھایا ہے۔
آج ہم آپ کے لیے اس سیریز کی ساتویں قسط کی کہانی لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ یہ اب تک کی سب سے سنسنی خیز قسط تھی کہ جس میں کہانی نے کئی پلٹے کھائے تو آئیے شروعات کرتے ہیں۔


سرائے میں ایزابیل سے جھگڑے کے دوران دسپینا بے ہوش ہو جاتی ہے، جس پر اسحاق آغا دائی آسیہ کو بلانے کے لیے اس کے گھر جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ یورگو اسی گھر میں مقیم ہے اور دروازے پر اسحاق آغا کی آمد کا سن کر اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ بہرحال، آسیہ اسحاق آغا کو گھر میں داخل ہونے نہیں دیتی اور سرائے پہنچ کر دسپینا کو ہوش میں لاتی ہے۔ اس صورت حال میں بھی دسپینا کا غصہ کم نہیں ہوتا ہے اور وہ جاتے ہوئے ایزابیل کو کہہ جاتی ہے کہ اگر عروج زندہ واپس نہ آیا تو اس کا بدلا میں تم سے لوں گی۔


اُدھر عروج اور اس کے ساتھی بحری قزاقوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں اور اچانک دیکھتے ہیں کہ دشمن نامعلوم سمت سے آنے والے تیروں سے مر رہے ہیں۔ اسی وقت عروج کو خضر نظر آ جاتا ہے یعنی مدد آ پہنچی ہے۔ اس لڑائی میں شاہین بے کو بھی شریک دکھایا جاتا ہے، ایک بار وہ دیکھتا ہے کہ خضر پر پیچھے سے ایک قزاق حملہ آور ہے اور اسے مارنے ہی والا ہے۔ شاہین بے پہلے تو اپنا پستول اس پر تان لیتا ہے لیکن پھر نیچے کر لیتا ہے، یعنی وہ چاہتا ہے کہ خضر مارا جائے۔ وہ تو عین موقع پر عروج اس جگہ پہنچ کر قزاق کو قتل کر دیتا ہے ورنہ خضر کی جان خطرے میں تھی۔
تمام حملہ آوروں کا خاتمہ کرنے کے بعد عروج کہتا ہے کہ ساتھیو! چلو اب اسکندریہ چلیں، وہاں ہزاروں مسائل ہمارے منتظر ہیں۔ ہمیں ان سے انتقام بھی لینا ہے جنہوں نے ہمارے ساتھ یہ کیا۔
شاہین بے کو وہاں دیکھ کر جعفر سہمی ہوئی حالت میں نظر آتا ہے جبکہ عروج شاہین سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تم نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا گو کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ تم مشکل وقت میں میری مدد کرو گے۔ شاہین اس بات کا فوری کوئی جواب نہیں دیتا تو عروج خضر کی طرف دیکھتا ہے جو کہتا ہے آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔

تب فلیش بیک میں دکھایا جاتا ہے کہ آخر بحری جہاز پر ایسا کیا ہوا تھا کہ شاہین بے تمام تر مخالفت کے باوجود جزیرے پر آنے پر راضی ہوا۔ اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ مقابلے میں خضر شاہین کو بُری طرح پچھاڑ دیتا ہے اور اسے شکست دینے کے بعد کہتا ہے کہ اب رسوم و رواج کے مطابق میرے کہنے پر چلو گے یا میں تلوار کے ذریعے بات کروں؟
اس کے ساتھ ہی فلیش بیک ختم ہو جاتا ہے اور حال میں شاہین عروج سے کہتا ہے کہ میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ امید ہے تم دوبارہ کبھی کسی مصیبت میں مبتلا نہیں ہو گے کیونکہ کوئی مدد کرنے والا ہر بار نہیں ملتا۔
اس جملے کو ادا کرتے ہوئے شکست خوردگی کے آثار شاہین کے چہرے پر بالکل واضح نظر آتے ہیں جبکہ عروج اور خضر کے چہرے کامیابی و کامرانی سے منوّر دکھائی دیتے ہیں۔
واپسی کے سفر میں اسکندر اور حوروزجو عروج سے جعفر کے معاملے پر بات کرتے ہیں۔ جب عروج کہتا ہے کہ وہ اسکندریہ جا کر جعفر کو اس کے مالک کے حوالے کر دیں گے تو وہ سمجھتے ہیں کہ عروج کا اشارہ شاہین بے کی جانب ہے، اور کہتے ہیں کہ وہ ہمیں بچانے کے لیے آیا تھا، ابھی ہم اسی کے جہاز پر ہیں، اس لیے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا۔ جس پر عروج کہتا ہے میرا مطلب ہے اس کے اصل مالک کے حوالے کروں گا۔ اگر شاہین بے کا آئندہ رویہ ٹھیک رہا تو وہ آج کے بعد ہم اس کے دشمن نہیں ہوں گے۔
پھر عروج اس معاملے پر شاہین بے سے براہ راست بات بھی کرتا ہے کہ اس کا جعفر کے معاملے سے تعلق ہے یا نہیں۔ شاہین کوئی واضح جواب دینے کے بجائے کہتا ہے میں کسی سے نہیں ڈرتا، گو کہ میرے تم سے تعلقات شیریں نہیں بلکہ تلخ ہیں لیکن ہم دشمن نہیں حریف ہیں۔


عروج کو پکڑنے میں ناکامی پر پیٹرو رادکو کا گریبان پکڑ کر اسے سخت سست کہتا ہے۔ رادکو بتاتا ہے کہ ہمارے لوگ عروج پر قابو پانے ہی والے تھے کہ آخری لمحات میں کوئی ان کی مدد کو آ پہنچا۔ اب وہ اسکندریہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ اس پر پیٹرو کالے قزاق یعنی انتوان کو بھی خوب جھاڑتا ہے کہ جو پہلی مہم میں عروج کو ختم کرنے میں ناکام رہا تھا۔


اسکندریہ پہنچنے پر اسحاق آغا، دسپینا، زینب اور دیگر عروج، خضر اور الیاس کا استقبال کرتے ہیں۔ یہاں بہت جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جب اسحاق آغا عروج کے لیے اپنی بانہیں پھیلا دیتے ہیں۔ بعد میں عروج اور دسپینا بھی ایک دوسرے سے راضی دکھائی دیتے ہیں۔


عروج جعفر کو لے کر سرائے پہنچتا ہے اور وہاں سلویو کو کہتا ہے کہ میں کتے کو اس کے مالک کے حوالے کرنے آیا ہوں۔ اگر اسے دوبارہ میرے پیچھے بھیجا تو دونوں کو معاف نہیں کروں گا۔ سلویو غصے میں آ جاتا ہے اور کہتا ہے مجھے کسی کو تمہارے پیچھے بھیجنا بھی ہوگا تو اس بے وقوف کو بھیجوں گا؟ جس پر عروج کہتا ہے کیا تم مجھے بچہ سمجھتے ہو؟ بابا عروج کے لیے جال بچھانے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا۔ اپنے خلاف بچھائے گئے جال میں اس طرح تباہ کروں گا کہ تم بھی زندہ نہیں بچ پاؤ گے۔
اس پر سلویو عروج کو دھمکاتے ہوئے پوچھتا ہے کہ ہمارا جہاں کہاں ہے؟
عروج کہتا ہے کہ میں اس کی پوری پوری قیمت ادا کر دوں گا جس پر سلویو کہتا ہے کہ اگر ادا نہ کی تو اس سمندر کو تمہارے لیے ناقابلِ برداشت بنا دوں گا، تم یہاں ایک کشتی بھی نہیں چلا سکو گے۔
جس پر عروج یہ کہتے ہوئے نکل جاتا ہے کہ پہلے میں اپنا قرضہ ادا کروں گا، پھر ان سمندروں کو تمہارے اور تمہارا پٹّا تھامنے والوں کے لیے جہنم بنا دوں گا۔


اسحاق آغا الیاس کے علاج کے لیے کچھ جڑی بوٹیاں خریدنے بازار جاتے ہیں، جہاں انہیں ایک جگہ یورگو نظر آ جاتا ہے۔ وہ اس کا تعاقب شروع ہی کرتے ہیں کہ راستے میں انہیں دسپینا مل جاتی ہے۔ جب وہ انہیں یوں دیوانہ وار بھاگتے ہوئے دیکھتی ہے تو پوچھتی ہے کہ آخر آپ کسے تلاش کر رہے ہیں؟ جس پر اسحاق آغا بتاتے ہیں، یورگو کو!
گھر پہنچنے کے بعد اسحاق آغا دسپینا سے کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ پھر پوچھ رہا ہوں اور اس بار تم سچ بتاؤ گی کہ کیا تم اپنے بابا سے ملتی ہو؟ جس پر دسپینا کچھ جھجکنے کے بعد کہتی ہے کہ نہیں، وہ اسکندریہ میں نہیں ہیں، میں نے توانہیں کبھی نہیں دیکھا اور آخر میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی؟


عروج ایزابیل کو بتاتا ہے کہ جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے اسے اس کے باپ سلویو کو پوری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ایزابیل کہتی ہے کہ یہ قیمت وصول کرنا نہیں بلکہ ظلم ہے، میں اس حوالے سے اپنے بابا سے بات کروں گی۔ لیکن عروج اسے روک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہماری وجہ سے تم ویسے ہی کئی دشمنیاں مول لے چکی ہو، اس لیے اپنے باپ کے خلاف مت جاؤ۔ اونیتا کا معاملہ حل کرنا ہے تو تمہیں اپنے بابا کا ساتھ دینا ہوگا۔


اسکندریہ پہنچنے کے بعد خضر کو کتاب اور ایستر کے حوالے سے بہت پریشان دکھایا جاتا ہے۔ وہ ایستر کی کلیمنوس سے رہائی اور پیٹرو سے کتاب واپس حاصل کرنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے۔
ایستر کو قید میں بہت بُری حالت میں دکھایا جاتا ہے۔ بد ترین تشدد کے بعد وہ بتاتی ہے کہ اس کتاب کو اسکندریہ کا ایک شخص حل کر سکتا ہے، اس کا نام ہے عروج کیونکہ اس راز کی سب سے زیادہ مہارت اسی کے پاس ہے۔ بعد میں پیٹرو عروج کے معاملے سے خود نمٹنے کا فیصلہ کرتا ہے اور اسکندریہ کے لیے نکل پڑتا ہے۔

عروج کے معاملے پر ناکامی کے بعد رادکو اور انتوان دونوں ایک دوسرے پر اپنا غصہ اتارتے ہیں۔ شمشیر زنی میں انتوان رادکو کو پچھاڑ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو چیز مجھے پسند نہیں ہوتی، میں اس کا خاتمہ کر دیتا ہوں لیکن میری تلوار سے مرنے کی تمہاری اوقات نہیں، اس لیے تمہاری جان بخش رہا ہوں۔


ایک روز بازار میں ایک بچہ بابا عروج کو ایک خط دیتا ہے جو غالباً ایزابیل کا ہوتا ہے جو اسے جنگل میں ایک خفیہ مقام پر ملنے کا کہتی ہے۔ جنگل میں جب وہ عروج کا انتظار کر رہی ہوتی ہے تو وہاں وہی ڈاکو آ جاتے ہیں، جن کی ایک بار ایزابیل نے سرائے میں زبردست مار لگائی تھی بلکہ ان کے سرغنہ کا ہاتھ بھی کاٹ دیا تھا۔ وہ ایزابیل کو پکڑ لیتے ہیں لیکن عین موقع پر عروج پہنچ جاتا ہے اور کہتا ہے جو عورتوں سے بدتمیزی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اسے پہلے بابا عروج کی تلوار کا مزا چکھنا پڑتا ہے۔ بعد میں لڑائی کے دوران عروج پر ایزابیل کی جنگجویانہ صلاحیتیں کھلتی ہیں اور وہ کافی حیران ہو جاتا ہے۔
بہرحال، ایزابیل عروج کو مطلع کرتی ہے کہ اونیتا کے بارے میں اس کے شکوک و شبہات بالکل ٹھیک تھے۔ اس کی سازشوں کا جال ان کی سوچ سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ کہتی ہے کہ میں اکیلے اس معاملے کو حل نہیں کر سکتی، اس لیے بہتر ہے کہ تم اسکندریہ چھوڑ کر کہیں اور کام کرنے کا خیال دل سے نکال دو۔ تمہارے مقاصد اور میری بھائی کے لیے ضروری ہے کہ تم اسکندریہ ہی میں رہو۔ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہے لیکن یہ کہہ کر اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیتی ہے کہ میں تمہیں اپنی نظروں سے دُور نہیں دیکھ سکتی۔
بعد ازاں وہ اپنے زیورات عروج کے حوالے کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ تمہارا قرضہ ادا کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ عروج منع کرتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ یہ تمہارا مسئلہ حل کرنے سے زیادہ اہم نہیں ہیں اور میں ویسے بھی انہیں نہیں پہنتی۔ جعفر کا کام میں نے ہی تمہیں دیا تھا، اس لیے اس حادثے کی کچھ ذمہ دار میں بھی ہوں۔ اونیتا کا معاملہ حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے تمہیں اپنی ساتھی کی یہ پیشکش قبول کرنا ہوگی۔ تم میرے بابا کے بجائے میرے مقروض بن جاؤ گے اور میں جانتی ہوں کہ تم قرض واپس کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اتنے اصرار کے بعد عروج زیورات قبول کر لیتا ہے۔

عروج زیورات لے کر سیدھا سلویو کے پاس جاتا ہے اور اس کا قرض ادا کر دیتا ہے۔ سلویو کے اس سوال پر کہ یہ سونا ملا کہاں سے؟ عروج کہتا ہے اپنے کام سے کام رکھو اور اگر مجھے اسکندریہ میں کام سے روکنے کی کوشش کی تو اگلی بار سونا نہیں لوہے کی تلوار دوں گا۔
یہاں سلویو کو زیورات کا معائنہ کرتے ہوئے شش و پنج میں مبتلا دکھایا جاتا ہے اور غالباً وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ زیورات کس کے ہیں۔


پیٹرو اسکندریہ پہنچتا ہے لیکن شہر کے داخلی دروازے پر انہیں روک لیا جاتا ہے۔ محافظ کہتا ہے کہ شہر میں وہی تاجر داخل ہو سکتے ہیں جن کے پاس تجارتی معاہدہ ہو۔ جب کوشش کے باوجود محافظ انہیں داخل نہیں ہونے دیتا تو الفانسو کے فرضی نام سے آنے والا پیٹرو اسے دھمکاتا ہے کہ اپنے کسی بڑے کو بلاؤ، جب وہ ہمیں دیکھ کر پہچان جائیں گے تو تم ہی مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔ اس دھمکی پر محافظ انہیں شہر میں جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔


عروج ایزابیل سے مل کر اسے بتاتا ہے کہ قرض اتار دیا ہے اور اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ ابھی ان کی گفتگو چل ہی رہی ہوتی ہے کہ پیٹرو وہاں پہنچ جاتا ہے۔ ایزابیل اسے بطور الفانسو جانتی ہے اس لیے عروج کا تعارف کرواتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ یہاں کے مشہور ترین کپتانوں میں سے ایک ہیں۔ جس پر پیٹرو کہتا ہے اچھا! تو تم ہو عروج؟ تمہارا نام اتنی بار سنا ہے کہ میں خود تم سے ملنا چاہتا تھا۔ جس پر عروج کہتا ہے کہ مجھ میں اتنی دلچسپی رکھنے والا یا تو میرا دوست ہونا چاہیے یا دشمن۔ تینوں کے درمیان گفتگو شروع ہوتی ہے اور شخصیتیں آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ گفتگو جس نہج پر پہنچ جاتی ہے اس سے عروج پیٹرو کے بارے میں کافی کچھ سمجھ لیتا ہے کہ وہ کس ذہنیت کا مالک ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب پیٹرو جانے لگتا ہے تو عروج کہتا ہے لگتا ہے ہمارا کئی بار آمنا سامنا ہوگا، جس پر پیٹرو سمجھ جاتا ہے کہ عروج اسے جان چکا ہے اور سرائے سے چلا جاتا ہے۔


باہر درویش بابا ایستر کی جگہ شہر کے بچوں کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی وہ ان بچوں سے بات کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ پیٹرو کا ادھر سے گزر ہوتا ہے اور وہ درویش کو دیکھ لیتا ہے۔ درویش بابا جب اگلی گلی میں داخل ہوتے ہیں تو پیٹرو سامنے کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے شک سب سے خطرناک زہر ہے، یہ ہر روز تکلیف دیتا ہے اور تم اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ جس پر درویش بابا کہتے ہیں کہ تمہارے اندر کا زہر تمہاری آنکھوں سے ظاہر ہے۔ پیٹرو کہتا ہے مجھے لگتا ہے میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے لیکن جانتا نہیں کہ تم کون ہے اور جب تک یہ پتہ نہیں چلے گا میرے اندر کے زہر میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بتاؤ کون ہو تم؟ درویش بابا کہتے ہیں میں محض اللہ کا ایک بندہ ہوں۔ پیٹرو کہتا ہے میں ایک پاگل بڈھا ہوں اور مجھے اتنا معلوم ہے کہ تمہارے پاس کوئی راز ہے، میری چھٹی حس مجھے دھوکا نہیں دیتی۔
جس پر درویش بابا کہتے ہیں کہ راز زندگی بھی دیتے ہیں اور موت بھی اور مجھے لگتا ہے تم ایسے راز کے پیچھے پڑ گئے ہو جو تمہیں مار ڈالے گا۔ تم اپنی موت کا دروازہ کھول رہے ہو۔
جس پر پیٹرو کہتا ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم نے اپنی موت کو یاد کیا ہو۔ یہ کہہ کر وہ درویش بابا پر خنجر تان لیتا ہے اور کہتا ہے میں تمہیں یہیں مار ڈالوں گا اور میرا شک ختم ہو جائے گا۔ درویش بابا بے خوف ہو کر اس خنجر کے مزید قریب ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اگر وقت آ گیا ہے تو پھر یہ خنجر محض ایک وجہ ہی بنے گا لیکن اگر نہیں آیا تو ایک ہزار تلواریں بھی مجھے مار نہیں سکتیں۔
پیٹرو انہیں اغوا کرنے اور اذیتیں دے کر منہ کھلوانے کی دھمکی دیتا ہے جس پر درویش بابا کہتے ہیں تم اتنے طاقتور نہیں ہو اور عین اسی وقت وہ بچے بھی اسی گلی میں آ جاتے ہیں جن میں کچھ دیر قبل درویش بابا کھانے پینے کی چیزیں بانٹ رہے تھے۔ وہ درویش بابا کو یوں خنجر کی زد میں دیکھ کر ہوشیار ہو جاتے ہیں اور اس سے پہلے کہ پیٹرو پر حملہ کرتے بابا انہیں روک لیتے ہیں اور پیٹرو سے کہتے ہیں کتے شیروں کے بستر پر نہیں سو سکتے، ورنہ شکار پر جاتے ہوئے خود شکار ہو جاؤ گے۔
پیٹرو کہتا ہے فی الحال تو میں جا رہا ہوں لیکن تمہارا راز اگلوانے کے لیے پھر آؤں گا۔


گھر پر دسپینا کو اپنے والد کے حوالے سے پریشان دکھایا جاتا ہے لیکن تمام بھائیوں کی موجودگی کی وجہ سے باقی گھر کا ماحول بہت اچھا ہو جاتا ہے۔ رات کو جب وہ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تب دکھایا جاتا ہے کہ ایک قریبی گھر کی چھت پر پیٹرو اپنا تیر تانے کھڑا ہے اور اپنے ساتھی سے سوال کر رہا ہے کہ اسے ایسے ہی خوشیوں کی جنت میں رہنے دیا جائے یا جہنم بھیج دیا جائے؟ اس کا ساتھی الفیو کہتا ہے کہ وہ آپ کے تیر کے نشانے پر ہے، اس لیے اسے مار دینا چاہیے۔ جس پر پیٹرو کہتا ہے کہ دانتے کا قول ہے کہ انسان کی طرح برتاؤ کرو، ایک بے وقوف بھیڑ کی طرح نہیں۔ عروج راز کے اہم حصوں میں سے ایک ہے، اس لیے ہمیں یہ زندہ حالت میں چاہیے، مردہ نہیں۔ کل ہم اسے پکڑیں گے۔
لیکن عروج کے خاندان کو ایک ساتھ کھانا کھاتے دیکھ کر پیٹرو اپنے خیالوں میں کھو جاتا ہے اور دکھایا جاتا ہے کہ وہ بھی بچپن میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک میز پر کھانا کھا رہا ہے اور چند لوگ گھر میں داخل ہو کر اس کے ماں باپ کو قتل اور اسے اور اس کی بہن کو اغوا کر لیتے ہیں۔ بعد میں دونوں کو الگ کر دیا جاتا ہے۔
پھر وہ کہتا ہے کہ عروج کو تو ہم آج نہیں ماریں گے، لیکن اگر کسی بندے کو آج مارنا ہی ہے تو وہ یہ رہا، یہ کہہ کر وہ یکدم پیچھے مڑ کر اپنا تیر چھوڑ دیتا ہے اور وہ اسی محافظ کے سر پر جا لگتا ہے جس نے انہیں شہر کے دروازے پر روکا تھا اور اب چھپ کر ان کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔


اگلے منظر میں ہمیں سرائے میں اونیتا کا ایک نمائندہ سلویو سے گفتگو کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سلویو اسے بتاتا ہے کہ اس نے اونیتا سے آنے والا خفیہ خط پڑھ لیا ہے اور اگر اس منصوبے پر عمل ہوا تو دنیائے اسلام قیامت تک ہماری غلام ہو جائے گی۔
بعد ازاں سلویو ایزابیل کو بلا کر اسے بتاتا ہے کہ عروج نے کچھ زیورات دے کر اپنا قرض چکا دیا ہے لیکن یہ انگوٹھی دیکھو، مجھے لگتا ہے یہ تمہاری ماں نے تمہارے لیے چھوڑی تھی۔ کیا تم نے عروج کی مدد کی ہے؟ جس پر ایزابیل کہتی ہے کہ اسکندریہ میں زیورات کی دکانوں پر ایسی سینکڑوں انگوٹھیاں ہوں گی لیکن آپ کیونکہ عروج سے خفا ہیں، اس لیے مجھ پر شک کر رہے ہیں۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ عروج سے دور رہوں گی اور اب بھی اگر آپ شک کرتے رہیں گے تو میں آپ کے ساتھ کیسے رہوں گی؟ اگر مجھ پر یقین نہیں تو مجھے گولی مار کر ختم کر دیں۔ مجھے اب کسی کا خوف نہیں۔
اس پر سلویو کہتا ہے کہ مجھے تم پر یقین ہے، اس لیے میں یہ بات دوبارہ نہیں دہراؤں گا لیکن اگر تم نے عروج کی مدد کی، تمہاری وجہ سے ہمارے کاموں میں کوئی خلل پڑا تو مجھے جو کرنا پڑے گا بلا جھجک کروں گا۔


ادھر خضر عروج کو بتاتا ہے کہ کتاب اور ایستر کے معاملے پر وہ بہت پریشان ہے کیونکہ اگر انہوں نے کتاب کا معمہ حل کر لیا تو قیامت برپا کر دیں گے۔ عروج کہتا ہے کہ ہمیں کلیمنوس پر حملہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا، اس کے لیے گہری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ خضر جو ویسے ہی کافی پریشان ہوتا ہے اس جواب پر کہتا ہے تو اس وقت تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ جب تک ہم یہاں انتظار کریں گے، تب تک وہ کتاب کا راز پا لیں گے اور پھر ہم کچھ نہیں کر پائیں گے؟ اس کا غصہ دیکھ کر عروج کہتا ہے کہ بابا عروج صرف بہادری سے نہیں بلکہ تدبیر سے بنا ہے۔ چلو چلتے ہیں کلیمنوس، محض اس لیے کہ کتاب بھی نہ ملے اور سب مارے بھی جائیں، کیا یہ ٹھیک رہے گا؟ میں ان کی سازشوں کے توڑ کے لیے دن رات کام کر رہا ہے اور تم سے زیادہ اس کتاب اور لڑکی کو بچانا چاہتا ہوں، لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔
خضر بحث جاری رکھنا لیکن عروج کہتا ہے بس! اس وقت ہم خود مصیبت میں ہیں۔ اونیتا کا جہاز ڈبو چکے ہیں، قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ہمیں فوراً کام حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے ہمیں کلیمنوس جانے کے لیے جہاز کون دے گا؟ اور یاد رکھو مجھے بتائے بغیر کوئی حرکت نہ کرنا۔
اس پر خضر اثبات میں سر تو ہلا دیتا ہے، لیکن اس کی آنکھوں سے بہت کچھ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔


اگلے دن پیٹرو اپنے منصوبے کے مطابق عروج کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک گلی سے گزرتے ہوئے اس کے کئی کارندے عروج کو گھیر لیتے ہیں۔ عروج ان سب کو پچھاڑنے والا ہی ہوتا ہے کہ اوپر سے اس پر جال پھینک دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ عروج کسی بڑی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا اور پکڑا جاتا، درویش بابا اور حوروزجو وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ عروج جال سے نکل آتا ہے اور بالآخر وہ چاروں حملہ آور مارے جاتے ہیں۔ پیٹرو اوپر گھر کی چھت سے یہ سارے مناظر دیکھ رہا ہوتا اور پھر بھاگ جاتا ہے۔
عروج درویش بابا سے کہتا ہے کہ آپ کے الفاظ کی طرح آپ کی تلوار بھی خوب چلتی ہے جس پر درویش بابا کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ باتوں سے نہیں سمجھتے، انہیں صرف تلوار سے سمجھ آتی ہے۔
اس پر عروج پوچھتا ہے کہ آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں جال میں پھنسوں گا؟ اب یہ مت کہیے گا کہ یہ محض اتفاق تھا۔ اس پر درویش بابا کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں ایک بار کہا تھا کہ وہ تمہارے خلاف ایک جال بُن رہے ہیں۔ تو یہ جانتے ہوئے میں تم سے نظریں کیسے ہٹا سکتا تھا؟

عروج کے اس سوال پر کہ یہ کون لوگ تھے؟ درویش بابا کہتے ہیں کہ وہی جن کے تم پیچھے ہو۔ یہ مسلمانوں کو بحیرۂ روم سے نکالنا اور ان کے پرچم کو سرنگوں دیکھنا چاہتے ہیں۔
عروج کہتا ہے کہ ہم کافروں کو ٹھکانوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، آپ کسی کو جانتے ہیں جو ہماری مدد کر سکتا ہو؟ جس پر درویش بابا کہتے ہیں میں بہت کچھ جانتا ہوں لیکن وہ باتیں ابھی راز ہیں۔ وہ راز جو اس کتاب میں لکھے ہیں جو کلیمنوس میں ہے۔ کیا آپ اسے بچانے کے بارے میں نہیں سوچ رہے؟
عروج کہتا ہے میں سوچ تو رہا ہوں لیکن فی الحال ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں، جہاز نہیں، میں یہاں پھنس گیا ہوں، جہاز خریدنا چاہتا ہوں لیکن بیچنے والے چار گُنا زیادہ قیمتیں لگا رہے ہیں، میں کام کرنا چاہتا ہوں لیکن اونیتا اجازت نہیں دیتا، پھر مجھ پر قرض بھی ہے۔
درویش بابا کہتے ہیں لیکن اگر وہ راز کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئے تو مسلمانوں کو سانس تک نہیں لینے دیں گے۔ پھر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم اپنا قرضہ ادا کر پاؤ گے یا نہیں؟
اس پر عروج پوچھتا ہے کہ تو میں کیا کروں؟ میرے پاس جہاز نہیں، میں کلیمنوس کیسے جاؤں؟
درویش بابا جواب دیتے ہیں جس کے قرض دار ہو اس نے قرض کی واپسی کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا، لیکن راز تک پہنچنے کا وقت محدود ہے، اسے فوراً بچانا چاہیے۔ پھر درویش بابا اسے جہاز کے حوالے سے کچھ بتاتے ہیں۔ اس منظر میں ان کی گفتگو نہیں خفیہ رکھی جاتی ہے لیکن عروج کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر لگتا ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔


عروج قلیچ بے کے پاس جاتا ہے جو اس کی آمد پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ان کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ آپ کے بھیجے گئے جہاز کی وجہ سے ہم بچ گئے اور کہتا ہے کہ شاہین کا بھی شکریہ کہ جو ہمارے شانہ بشانہ لڑا۔ پھر عروج اپنا مدعا بیان کرتا ہے کہ اسے جہاز چاہیے، وہ بھی کاروباری سامان کے لیے نہیں بلکہ کسی اور کام کے لیے۔ اس پر شاہین کہتا ہے کہ ابھی تم نے اونیتا کا جہاز ڈبویا ہے اور اب ہم سے ایسے کام کے لیے جہاز طلب کر رہے ہو جس کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم؟ ہم اپنے جہاز کو کسی ایسے خطرے میں نہیں جھونک سکتے، جس کا ہمیں علم تک نہ ہو۔
اس پر عروج کہتا ہے کہ قلیچ بے کی موجودگی میں اب تم فیصلے کرو گے شاہین؟ پھر بے سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں، ہم اس پر خفا نہیں ہوں گے لیکن اگر آپ ہمیں جہاز دے دیں گے تو ہمیں بہت مدد ملے گی۔ اب فیصلہ آپ کا ہے، شاہین کی طرح پریشان ہو کر ہماری درخواست مسترد کر دیں یا ہم پر اعتماد کر کے ایک جہاز ہمارے حوالے کر دیں۔


بعد میں گھر پر خضر اور نیکو کو اطلاع ملتی ہے کہ عروج کو جہاز مل گیا ہے اور وہ کل ہی کلیمنوس روانہ ہو رہے ہیں۔ الیاس بھی خوش ہو جاتا ہے جس پر اسے بتایا جاتا ہے کہ صرف خضر اور نیکو ہی مشن پر جائیں گے۔ الیاس سخت ناراض ہوتا ہے لیکن اسے بتایا جاتا ہے کہ بابا عروج کا یہی حکم ہے۔


اسحاق آغا کو بہت پریشانی عالم میں دکھایا جاتا ہے، خاص طور پر یورگو کو اسکندریہ میں دیکھنے کے بعد انہیں بار بار اپنے خاندان کا روح فرسا انجام یاد آتا ہے۔ اس صورت حال کا اندازہ دسپینا کو بھی ہوتا ہے اس لیے وہ آسیہ کے گھر جا کر اپنے باپ یورگو سے ملتی ہے اور اسے واپس مدلّی جانے کا کہتی ہے۔ یورگو کئی بہانے کرتا ہے لیکن وہ نہ صرف بار بار اسکندریہ چھوڑنے کا کہتی ہے، بلکہ اسے کچھ رقم بھی دیتی ہے اور کہتی ہے میری کل جمع پونجی یہی ہے، اسے استعمال کریں اور فوراً مدلّی واپس جائیں۔ یورگو دسپینا کو یقین دلاتا ہے کہ وہ پہلے جہاز سے یہاں سے چلا جائے گا۔ لیکن دسپینا کے جانے کے بعد آسیہ کو کہتا ہے کہ جاؤں گا تو لیکن کچھ ٹھیر کر، ابھی تو اسکندریہ میں ان پیسوں سے کچھ مزے کر لوں۔


بندرگاہ پر خضر عروج کو کہتا ہے کہ آپ تو کلیمنوس پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے، تو یہ اچانک ذہن کیسے بدل گیا؟ جس پر عروج کی نظریں ایک سمت دکھائی جاتی ہیں، جہاں درویش بابا کھڑے ہوتے ہیں۔ عروج کہتا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا، اب وقت نے اشارہ کر دیا ہے۔ بعد ازاں بحری جہاز پر عروج اپنے ساتھیوں کا ولولہ بڑھانے کے لیے انہیں کہتا ہے کہ اس سفر میں یا تو ہم کامیابی حاصل کریں گے یا شہادت، اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔



عروج کو یوں جہاز دیے پر شاہین سٹپٹا جاتا ہے اور ایک مرتبہ پھر جعفر سے مل کر اسے عروج کے خلاف اکساتا ہے جو وعدہ کرتا ہے کہ وہ عروج کے خلاف کچھ بھی کر گزرے گا۔


یورگو اپنی بیٹی دسپینا کا دیا گیا سارا پیسہ جوئے میں ضائع کر بیٹھتا ہے اور اسے ہرانے والا کوئی اور نہیں بلکہ جعفر ہوتا ہے۔ ہارنے کے بعد یورگو کہتا ہے تم نے دھوکے سے میرا سونا مجھ سے لیا ہے۔ ہنگامہ کرنے پر اسے سرائے سے نکال دیا جاتا ہے۔


اُدھر کلیمنوس میں فصیل کے محافظوں کو سمندر میں ایک جہاز لنگر انداز ہوتے نظر آتا ہے۔ وہ فوراً رادکو تک یہ بات پہنچاتے ہیں کہ پیچھے سے ایک جہاز کنارے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ رادکو فوراً سمجھ جاتا ہے اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس طرف نکل پڑتا ہے لیکن جب وہ کشتی تک پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں کوئی بھی نہیں اور یہ ان کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک جال بچھایا گیا تھا۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ حملہ آور کسی دوسری طرف سے شہر میں داخل ہوئے ہیں اور تب دکھایا جاتا ہے کہ عروج اور اس کے ساتھ تیر کر شہر کی بندرگاہ پر پہنچتے ہیں اور چند محافظوں کو ٹھکانے لگا کر خفیہ راستوں سے شہر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ مارے گئے سپاہیوں کا لباس پہن کر قلعے کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اتنے سارے سپاہیوں کی غیر متوقع آمد دیکھ کر محافظ سمجھ جاتے ہیں کہ کوئی گڑبڑ ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہر میں داخل ہوتے ہی لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ ان سے چھٹکارا پانے میں کامیابی کے بعد عروج کہتا ہے کہ آسان مرحلہ ختم ہوا، اب مشکل مرحلہ شروع۔
رادکو بندرگاہ پہنچ کر سمجھ جاتا ہے کہ شہر میں داخل ہونے والا خضر کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا اور اپنے کارندوں کو شہر کے چپے چپے میں پھیلا دیتا ہے۔ پیٹرو کو قلعے پر حملے کی اطلاع اس وقت پہنچتی ہے جب وہ کتاب کو پڑھ رہا ہوتا ہے، وہ اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے وہ تمہارے لیے ہی آئے ہوں گے اور اسے ایک خفیہ جگہ پر رکھ دیتا ہے۔
کچھ دیر بعد عروج، خضر اور دیگر ساتھی قید خانے تک پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں ایک کوٹھڑی میں ایستر نیم بے ہوشی کے عالم میں ملتی ہے۔ عروج ایستر کو لے کر قلعے سے نکل جاتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ قلعے کے مختلف حصوں میں دھماکا خیز مواد لگاتے ہیں۔ جیسے ہی پیٹرو اور ساتھی زندان میں داخل ہوتے ہیں وہ پھٹ جاتا ہے لیکن وہ، ڈیاگو اور انتوان بچ جاتے ہیں۔
جب رادکو قلعے کے دروازے پر پہنچتا ہے تو اسے داخلی دروازہ بند نظر آتا ہے۔ وہ اسے کھولنے کا حکم دیتا ہے، لیکن دروازہ جیسے ہی کھلتا ہے اس کے نیچے لگایا گیا دھماکا خیز مواد بھی پھٹ جاتا ہے۔ کئی محافظ مارے جاتے ہیں جبکہ رادکو بچ جاتا ہے۔ ان کے سپاہی شہر کے مختلف علاقے چھان مارتے ہیں لیکن جہاں جہاں وہ تلاش کرتے ہیں وہاں وہاں لگایا گیا دھماکا خیز مواد انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔
اس زبردست منصوبے کے باوجود عروج کے ساتھی پریشان ہوتے ہیں کہ خضر کتاب تلاش کرنے کے لیے قلعے ہی میں ہے، وہ آخر وہاں سے کیسے نکلے گا؟ جس پر عروج کہتا ہے کہ اس کا نام خضر ہے، وہ راستہ نکال ہی لے گا۔ تب عروج اور خضر کی ایک خفیہ گفتگو دکھائی جاتی ہے جس میں وہ اس مہم کا پورا منصوبہ مرتب کرتے ہیں۔ دکھایا جاتا ہے کہ دراصل زینب نے خضر کے اصرار پر جیووانی کو ایک خط لکھا تھا جس میں خضر کی مدد کرنے کو کہا گیا تھا۔ لیکن قلعے میں جب وہ جیووانی تک پہنچتے ہیں تو وہ شروع میں تو کہتا ہے کہ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ، لیکن خضر اسے مدد پر قائل کر لیتا ہے۔


اسکندریہ میں دسپینا آسیہ کے گھر جا کر معلوم کرتی ہے کہ اس کا باپ مدلّی واپس گیا یا نہیں۔ آسیہ بتاتی ہے کہ اس نے کہا تھا کہ وہ چلا جائے گا لیکن پہلے کچھ مزے لوٹے گا پھر۔ دسپینا حیرت میں مبتلا ہوجاتی ہے اور کہتی ہے کہ اسحاق آغا ان کی جان کے درپے ہیں اور انہیں مزے لینے کی پڑی ہے؟
پھر یورگو کو جوئے میں سب کچھ لٹانے کے بعد پریشانی کے عالم میں ایک جگہ بیٹھا دکھایا جاتا ہے، عین اس موقع پر اسحاق آغا اس کے پیچھے سے گزرتے ہیں۔ ایک شخص کو روتے اور آہ و بکا کرتے دیکھ کر وہ رک جاتے ہیں اور حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ یورگو ہے۔ اسحاق آغا کو اپنے سامنے دیکھ کر یورگو کے تو ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ ایک قدم اٹھاتا، اسحاق آغا اسے گریبان سے پکڑ لیتے ہیں اور مارنے ہی والے ہوتے ہیں کہ منظر کٹ جاتا ہے۔


اُدھر کلیمنوس میں عروج اور اس کے ساتھی جزیرے سے نکلنے والے ہی ہوتے ہیں کہ رادکو کے کارندے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ آدھے لوگ جہاڑ تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ باقی بابا عروج کے ساتھ رادکو کے کارندوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بالآخر عروج اور انتوان آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ عروج کہتا ہے اس مرتبہ تک سمندر کی گہرائیوں میں نہیں ، مٹی کی گہرائی میں جاؤ گے۔ تب رادکو اور اس کے مزید سپاہی بھی آ جاتے ہیں۔ مزید کمک دیکھ کر انتوان یعنی کالا قزاق کہتا ہے آج رات میں تو مٹی کے اوپر ہی رہوں گا۔

آخری منظر میں دکھایا جاتا ہے کہ جیووانی خضر اور نیکو کو پیٹرو کے کمرے میں لاتا ہے اور کہتا ہے جس چیز کی تمہیں تلاش ہے، میرا اندازہ ہے کہ وہ یہاں ہوگی۔ کافی تلاش کے باوجود انہیں کتاب نہیں ملتی لیکن خضر کا دماغ کام کرتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہیں دیواروں میں کوئی اینٹ کھوکھلی تو نہیں؟ بالآخر وہ ایک تصویر کے پیچھے اس جگہ پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ ایک بڑی سی اینٹ کو ہٹا کر پیچھے سے کتاب نکال لیتا ہے۔ ابھی وہ کمرے سے نکل ہی رہے ہوتے ہیں کہ پیٹرو اپنے سپاہیوں کے ساتھ اندر داخل ہو جاتا ہے۔
قسط کا اختتام کچھ یوں ہوتا ہے کہ خضر پیٹرو اور اس کے سپاہیوں کے سامنے کھڑا ہے جکہ عروج کالے قزاق اور رادکو کے سامنے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: