کیمیائی ہو یا نہ ہو، شام مر رہا ہے – ابراہیم قالن
ابراہیم قالن، پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور ترک صدر رجب طیب ایردوان کے چیف مشیر اور ترجمان ہیں، اس کے علاوہ وہ پرنس الولید سنٹر فار مسلم کرسچیئن انڈرسٹینڈنگ، جارج ٹاؤن یونیورسٹی، امریکا کے ایسویسی ایٹ فیلو بھی ہیں۔ انہیں ایک تربیت یافتہ اسلامی اسکالر گردانا جاتا ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف اور کئی مضامین و نشر پاروں کے مقالہ نگار بھی ہیں۔ آپ ترکی کے متعلقہ موضوعات پر ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے 4دسمبر 2012ء کو نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا تھا: "میں اسد اور اس کی کمانڈ پر واضع کر دینا چاہتا ہوں کہ دنیا سب دیکھ رہی ہے”۔ یہ مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف وارننگ تھی۔ وہ حملہ 21 اگست 2013ء کو دمشق کے نزدیک غوتا کے علاقہ میں ہوا جس میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 1500 افراد نشانہ بن گئے۔ پانچ سال میں اسد نے اس تاریخ میں سب سے انسانوں کا قتل عام کیا۔ یہ سب اس نے دونوں کیمیائی اور متنازعہ ہتھیاروں کے ساتھ کیا جسے دنیا "دیکھ” رہی تھی۔
4 اپریل 2017ء کو خان شیخون میں ہونے والا کیمیائی حملہ اسدرجیم کی نسل کش سیاست کی تازہ ترین واردات ہے۔ اقوام متحدہ شام میں مرنے والوں کی تعداد کو گراؤنڈ میں رہ کر گننا ترک کر چکی ہے اس لیے اس حملے میں مرنے والوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرح باقی بین الاقوامی برادری اور دنیا کی طاقتور قومیں بھی 21 ویں صدی کی اس بھیانک خونی جنگ میں کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔
22فروری 2017ء کو ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے "2016ء کے اختتام تک اس تنازعہ میں 300،000 سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں”۔ لیکن حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسد رجیم اور اس کی کمانڈ میں موجود ملٹری گروہ اس وقت یقینی طور پر 600،000 سے زاید افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ اپنے ملک کے لوگوں کے خلاف کیمیائی اور متنازعہ ہتھیار استعمال کرنے سے نہ تو اسد رجیم کو جینیوا عمل روک سکا اور نہ آستانہ عمل روک سکے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دنیا اس کی خونریزی "دیکھ” رہی ہے اور داعش کے خلاف جنگ کے اظہاریہ میں اپنے مفادات ڈھونڈتی پھر رہی ہے، اسد نے باآسانی اپنی بربریت جاری رکھی ہوئی ہے۔
جو لوگ ان کیمیائی حملوں، بیرل بمبوں اور مورٹر شیلوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے مہاجرین بنے اور لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کی۔ یہی ایمنیسٹی رپورٹ بتاتی ہے کہ "2011ء سے 2016ء کے اختتام تک 4.8ملین افراد شام سے نکل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ کی مہاجرین بارے ادارہ، یو این ایچ سی آر کے مطابق صرف 2016ء میں 200،000 مہاجر بن گئے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے مطابق اسی چھ سالہ عرصہ میں 6.6ملین شامی شام کے اندر ہی نکل مکانی کر گئے جن میں آدھے بچے تھے۔ مزید ہزاروں افراد بحیرہ روم اور ایجین سمندروں کے ٹھنڈے پانیوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یونیسف کے مطابق 8ملین شامی بچوں کو ہنگامی طور پر خوراک کی ضرورت ہے جن میں 2ملین شامی مہاجر بچے شامل ہیں۔
خان شیخون میں ہونے والے کیمیائی حملے کے بعد امریکا کا ردعمل درست سمت کی جانب ایک قدم اور لفظوں کے بجائے ایک عملی وارننگ تھی۔ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ جاری قتل عام اور بڑھتے ہوئے انسانی بحران کی بڑی برائی کو دیکھتے ہوئے، یہ ناکافی ہے کہ یا تو جنگ تو روک دیا جائے یا شامی عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ ایک بار پھر امریکی انتقامی کارروائی کے بعد ایک جواز کے طور پر یہ سچ اسد حکومت کے استعمال کے کیمیائی ہتھیاروں کی ہمت نہیں ہو گی ہے