تذبذب کا شکار کمالسٹ اور اسلامسٹ عبد اللہ گل کی تلاش میں
ترک صدر ایردوان اور ان کے اتحادی دولت بہچالی نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے اپوزیشن جماعتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اعلان کے بعد سے ہی اپوزیشن تذبذب کا شکار ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی الجھن میں کوئی کمی نہیں آ رہی بلکہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ترکی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت اور مصطفےٰ کمال اتاترک کی وارث کہلائے جانے والی "جمہوریت عوام پارٹی” (CHP) کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو تاحال بضد ہیں کہ وہ خود کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش نہیں کریں گے لیکن کسی دوسرے پارٹی ممبر کو بھی سامنے آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کے دائیں بازو کی نئی وجود میں آنے والی "اچھی پارٹی” (IP) سے خفیہ مذاکرات ہو رہے تھے اور امید کی جا رہی تھی کہ اس سے کسی امیدوار کا نام جنم لے گا لیکن ان تمام خدشات پر پانی پھر گیا جب ان خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں "جمہوریت عوام پارٹی” سے 15 پارلیمانی ممبران "اچھی پارٹی” میں چلے گئے تاکہ وہ صدارتی انتخابات لڑنے کے قابل ہو سکے۔ نئے صدارتی نظام کے تحت کسی بھی امیدوار/پارٹی کو صدارت کے لیے لڑنے کے لیے 100000 ووٹرز یا 20 ممبران اسمبلی کی حمایت لازمی ہے۔ ان دو اپوزیشن پارٹیوں کے اس انوکھی حرکت کو تجزیہ نگار غیر اخلاقی اور مصنوعی سیاست قرار دے رہے ہیں جس کے اثرات آنے والے انتخابات پر ضرور پڑیں گے۔
تیسری بڑی اپوزیشن جماعت بارے اس سے بھی عجیب تر خبریں آ رہی ہیں۔ رجب طیب ایردوان کے استاد نجم الدین اربکان کی وارث، اسلامسٹ "سعادت پارٹی” (FP) ایردوان مخالف ایک ایسے اتحاد کی کوششیں کر رہی ہے جس میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی پارٹیاں موجود ہوں۔ اور جس امیدوار پر وہ سب اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ ہیں سابق صدر ترکی عبد اللہ گل۔
عبد اللہ گل "آق پارٹی” (AK Parti) کے سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ آق پارٹی کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد پہلے صدارتی امیدوار کے طور پر رجب طیب ایردوان نے "میرے بھائی گل” کہتے ہوئے انہیں آق پارٹی کی طرف صدارتی امیدوار پیش کیا تھا۔ اپوزیشن "جمہوریت عوام پارٹی” کی شدید مخالفت کے باوجود عبد اللہ گل 2007ء میں ترکی کے صدر بن گئے۔ صدر جمہوریہ ترکی بننے کے بعد انہوں نے قانونی شرط کے طور پر "آق پارٹی” سے استعفی دے دیا۔ 2014ء میں مدت صدارت ختم ہونے کے بعد رجب طیب ایردوان صدر جمہوریہ ترکی بن گئے لیکن عبد اللہ گل واپس "آق پارٹی” میں نہ آئے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ "سعادت پارٹی” دوسری اپوزیشن جماعتوں "جمہوریت عوام پارٹی” اور "اچھی پارٹی” سے مذاکرات کر رہی ہے کہ عبد اللہ گل کو متحدہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے طور پر قبول کر لیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان سے جب اس بارے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے مقابلے میں عبد اللہ گل کو اپوزیشن متفقہ امیدوار لا رہی ہے؟ تو انہوں نے یہ کہہ کر تبصرہ کرنے سے ہی انکار کر دیا کہ یہ میرا معاملہ نہیں ہے۔ دوسری طرف خود "جمہوریت عوام پارٹی” میں بائیں بازو کا ایک گروپ سامنے آیا ہے کہ صدارتی امیدوار پارٹی کے اندر سے ہی لایا ہے اور عبد اللہ گل کو جمہوریت کا قاتل قرار دے دیا۔ اور کچھ تو یہ کہتے بھی پائے گئے کہ اگر عبد اللہ گل کو صدارتی امیدوار کے طور پر قبول کیا گیا تو وہ رجب طیب ایردوان کو ووٹ دینا پسند کریں گے۔
اس صورت حال میں جب اپوزیشن جماعتیں رجب طیب ایردوان کے مقابلے میں ابھی تک اپنا امیدوار ہی پیش نہیں کر سکیں۔ "آق پارٹی” اور اتحادی جماعت "ملی حرکت پارٹی” اعتماد کے ساتھ میدان میں اتر چکی ہیں۔