اطالوی وزیراعظم دراغی کے ریمارکس ‘مکمل طور پر بدتہذیبی’ پر مبنی ہیں، صدر ایردوان
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اطالوی وزیراعظم دراغی کی طرف سے انہیں "آمر” کہنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ "جو اس نے کیا وہ مکمل طور پر بے تُکا پن اور بدتہذیبی ہے۔ دراغی نے اپنے اس بیان سے ترکی اور اٹلی کو بہتر ہوتے تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ردعمل انہوں نے صدارتی کمپلیکس سے ملحقہ ملی کتب خانے (لائیبریری) میں نوجوانوں سے ایک سرپرائز ملاقات کے دوران ان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے دیا۔
ترک وزرات خارجہ نے گذشتہ ہفتہ اطالوی سفیر کو اس بیان پر طلب کیا تھا۔ وزیرخارجہ میولوت چاوش اولو نے اس بیان کو "ناقابل قبول” قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی تھی۔2019ء سے ترکی میں تعینات اطالوی سفیر ماسیمو گیانی سے اطالوی وزیراعظم کی طرف سے صدر ایردوان کو "آمر” کہنے پر جواب طلب کیا گیا تھا۔ ترک وزیرخارجہ نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ترکی صدر ایردوان بارے بیان کو شدید ترین الفاظ میں مسترد کرتا ہے جو ناقابل قبول، شہرت حاصل کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ ترکی اس بیان کو واپس لوٹاتا ہے۔
ترکی ایک بہتر معاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
ترکی کی طرف سے معاہدہ استنبول سے دستبرداری کو موضوع بناتے ہوئے ترک صدر ایردوان نے کہا، "استنبول معاہدہ نے خواتین کے حقوق میں کوئی قابل قدر حصہ نہیں ملایا، نہ ہی ہمارے ملک میں اور نہ ہی دنیا میں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم استنبول کنونشن کا ایک مناسب ، بہتر اور مضبوط ورژن تشکیل دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
ترکی نے 20 مارچ کو استنبول کنوشن سے یہ کہتے ہوئے دستبرداری کا اعلان کیا تھا کہ یہ معاہدہ ہماری مقامی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا اور یہ بھی کہ ترکی کے مقامی قوانین عورت کو بہت زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
ایڈمرلز کا مونٹریکس اعلامیہ، آزادی رائے نہیں ہے
ریٹائرڈ ایڈمرلز کے مونٹریکس معاہدہ بارے متنازعہ اعلامیے پر بات کرتے ہوئے ترک صدر ایردوان نے کہا کہ اس کا آزادی اظہارِ رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔صدر ایردوان نے کہا کہ "ریٹائرڈ سپاہی اور حاضرسروس سپاہی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا ہے، سپاہی ہمیشہ سپاہی ہوتا ہے”۔ مزید کہا کہ کچھ (سپاہی) ایسے ہیں جو اس طرح کام کرنے کا عادی ہو گئے ہیں۔ اگر آپ کو یہ کام پسند ہے تو ، آپ سیاست میں آ جائیں۔
گذشتہ ماہ ترکی کے طرف سے ، ایک صدارتی ایک فرمان کے ذریعے استنبول کنونشن کے نام سے معروف یورپی معاہدہ جس کا مقصد خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے اور ان کا مقابلہ کرنا تھا ، سے دستبرداری کے فیصلے کے بعد یہ سوال زیربحث آیا کہ کیا ترکی اسی طرح دوسرے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں، ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر مصطفی سیشتوپ نے کہا کہ تکنیکی طور پر یہ ممکن ہے اور انہوں نے آبنائے استنبول کے حوالے سے مونٹریکس کنونشن کی مثال دی۔ اسی پس منظر میں 104 ریٹائرڈ ایڈمرلز نے حکومت کو دھمکی دیتے ہوئے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں حکومت کو ایسے کسی عمل کو روکا گیا۔
مونٹریکس کنونشن 1936ء کا معاہدہ ہے جو ترکی کو باسپورس اور داردنیلاس پر کنٹرول فراہم کرتا ہے اور بحری جنگی جہازوں کی آمدورفت کو منظم کرتا ہے۔ یہ کنونشن امن کے اوقات میں سویلین جہازوں کے مفت گزرنے کی ضمانت دیتا ہے اور ان بحری جہازوں کے گزرنے پر پابندی عائد کرتا ہے جن کا تعلق بحیرہ اسود سے منسلک ریاستوں سے نہ ہو۔
معاہدہ لوزان، جس پر ترکی اور پہلی جنگ عظیم کے اتحادیوں برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، یونان اور رومانیہ کے مابین 1923 میں معاہدہ ہوا تھا – اس سے ترک جنگ آزادی کا خاتمہ ہوا تھا اور اس کی شکست کے بعد عثمانی حکومت پر سیوریس کا ذلت آمیز معاہدہ تھوپ دیا گیا تھا جس میں ترکی کی نئی سرحدوں کا تعین کیا گیا تھا۔