یہ کس طرح کا اتحاد ہے؟، صدر ایردوان کی امریکی پابندیوں پر کڑی تنقید

0 438

امریکا کی جانب سے ترک دفاعی اداروں اور شخصیات پر پابندیاں عائد کرنے کے اعلان پر صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ ترکی-امریکا تعلق کا زیادہ تر انحصار نیٹو کی رکنیت کی بنیاد پر ہے، اس لیے یہ سوال اٹھتا ہے کہ "یہ کس طرح کا اتحاد ہے؟”

نغدہ-انقرہ شاہراہ کی افتتاحی تقریب سے بذریعہ وڈیو کانفرنس خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ” کاؤنٹرنگ امریکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز ایکٹ مختصراً CAATSA پابندیاں 2017ء میں منظور ہوئیں اور اس کے بعد سے کسی ملک پر نہیں لگائی گئیں۔ ترکی وہ پہلا ملک ہے کہ جس نے ان پابندیوں کا سامنا کیا ہے اور یہ امریکا کا ‘نیٹو اتحادی’ ہے۔”

صدر ایردوان نے اسے ترکی کی سالمیت پر کھلا حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ "امریکی پابندیوں کا مقصد دفاعی شعبے میں ترکی کی پیشرفت کو روکنا ہے اور اسے ایک مرتبہ پھر دوسرے ملکوں کا تابع بنانا ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ ترکی کی سالمیت پر حملہ ہے۔”

البتہ صدر کا کہنا تھا کہ ترکی اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اب اس پر کسی پابندی کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ "اب ہم اپنی دفاعی صنعت کو خود مختار بنانے کے لیے دوگنی محنت کریں گے۔ امریکا، جس نے میزائل ڈیفنس سسٹمز کی ہماری کسی ضرورت کو پورا نہیں کیا، اب ہم پر اس لیے پابندیاں لگا رہا ہے کیونکہ ہم نے اپنی ضرورت کہیں اور سے پوری کر لی ہے۔”

امریکا نے سوموار کو ترک ادارۂ دفاعی صنعت (SSB) اور اس کے سربراہ اسماعیل دیمیر پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ یہ پابندیاں دراصل ترکی کی جانب سے روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم S-400 کی خریداری پر بطور سزا لگائی گئی ہیں۔ یہ خصوصی ایکٹ ‘CAATSA’ کسی بھی ملک کو روس کے ساتھ دفاعی سودا کرنے سے روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس کے تحت پابندیاں امریکی قرضوں کے حصول سے بھی روکتی ہیں، یعنی اس لحاظ سے تو ترک ادارے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ترک وزارت خارجہ نے اس پابندی پر فوری ردعمل ظاہر کرتے امریکا کو میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری کے حوالے سے اپنا غیر منصفانہ طرز عمل یاد دلایا تھا۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ "جن حالات میں ترکی S-400 خریدنے پر مجبور ہوا، وہ سب جانتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی بارہا ترکی کے درست مؤقف کی تائید کی ہے۔

امریکا کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہ S-400 نیٹو سسٹمز کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ترکی بارہا نیٹو کو ایک تکنیکی گروپ تشکیل دینے کی پیشکش کر چکا ہے، جو اس معاملے کو دیکھے لیکن اب تک اس پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

یہ کسی بھی نیٹو اتحادی پر CAATSA کے تحت پابندیاں عائد کرنے کا پہلا موقع ہے اور اس طرح واشنگٹن دوسرے ملکوں جیسا کہ مصر کو بھی روسی فوجی ساز و سامان خریدنے سے روکنا چاہتا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017ء میں CAATSA کی منظوری دی تھی، جس کے تحت اس کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر 12 میں سے پانچ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ ان میں ویزا پر پابندی سے لے کر امریکا میں قائم ایکسپورٹ-امپورٹ بینک تک رسائی روکنے یا اس سے بھی سخت پابندیاں جیسا کہ امریکی مالیاتی نظام میں لین دین سے پابندی اور ایکسپورٹ لائسنس ختم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

صدر ایردوان نے اپنی تقریر میں ترک دفاعی صنعت کی حالیہ کامیابیوں کا ذکر بھی کیا، خاص طور پر پہلے قومی ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم، حصار اے+ کا۔ انہوں نے کہا کہ اس سسٹم کے حتمی تجربات کامیابی کے ساتھ کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "اب کیا ہوگا؟ ہم نے تو یہ چیز خود بنا لی ہے، اپنے میزائل لگا لیے ہیں، اور تھوڑی سی تاخیر تو ہوئی، لیکن ہم نتیجے تک پہنچ گئے ہیں۔ ترکی اسی طرح خود انحصاری اختیار کرے گا اور اپنی دفاعی صنعت کو تقویت دیتا رہے گا۔”

حصار اے+ ڈیفنس سسٹم کو ملک کے معروف دفاعی اداروں اسیلسان اور روکتسان نے SSB کے تعاون سے بنایا ہے۔ حصار کے میزائل فوجی اڈوں، بندرگاہوں، تنصیبات اور افواج کو فضائی خطرات سے بچانے کے علاوہ ترک برّی فوج کی کم اور درمیانی بلندی کے ایئر ڈیفنس سسٹم کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔

حصار اے+ نے اپنا تجرباتی مرحلہ مارچ 2019ء میں مکمل کیا تھا، جب اس نے ایک اڑتے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔ یہی نہیں بلکہ پرواز کے دوران میزائل کا رخ دوسرے ہدف کی جانب کرنے کا ٹیسٹ بھی کامیابی سے مکمل کیا گیا۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: