صدر ایردوان اور صدر پوتن کل ٹیلی فون پر تبادلہ خیال کریں گے
ترک صدر رجب طیب ایردوان، روسی ہم منصب ولادیمیر پیوتن کو یوکرائن پر حملے کو روکنے کا کہیں گے، یہ بات صدر رجب طیب ایردوان کے ترجمان ابراہیم قالن نے کہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکو اور کیف کے درمیان بات چیت کے نتائج کی توقع کرنا حماقت ہے وہ بھی ایسی صورت جب لڑائی جاری ہو۔ اس لیے لڑائی کا روکنا اور پھر میز پر بیٹھنا ضروری ہے۔
ترکیایک طرف نیٹو کا رکن ملک ہے تو دوسری طرف بحیرہ اسود میں یوکرائن اور روس کے ساتھ سمندری سرحدیں رکھتا ہے اور اس کے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات موجود ہیں۔ ترکی نے ماسکو پر پابندیوں کی مخالفت کی ہے، تاہم اس نے یوکرائن پر اس کے حملے کو ناقابل قبول قرار دیا تھا، اس نے روس سے جلد از جلد جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور امن مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔
استنبول میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے کہا کہ صدر ایردوان اتوار کے روز فون کال پر روسی صدر پوتن کو ترکی کی پیشکش کا اعادہ کریں گے۔ وہ صدر پوتن سے جنگ بندی کو "ایک موقع” دینے، اپنے حملے بند کرنے اور شہریوں کے انخلاء اور امداد کی ترسیل کے لیے درکار راہداریوں کے قیام میں مدد کرنے کا کہیں گے۔
صدارتی ترجمان نے کہا کہ "ہم اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ ہم فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے اور روسی فریق کو (روکنے کے لیے) راضی کرنے کے لیے یہاں کون سے اقدامات کر سکتے ہیں”، قالن نے مزید کہا کہ یہ ضروری تھا کہ ماسکو کے پاس مغرب سے بات کرنے کے لیے ایک قابل اعتماد راستہ موجود ہو۔ جن کے ساتھ اس کے "تمام پُل جل چکے ہیں”۔
انہوں نے کہا، ” مذاکرات کے لیے (روس کے ساتھ) اعتماد کے اس نیٹ ورک کو مکمل طور پر کھلا رکھنا چاہیے، تاکہ سفارت کاری کی کامیابی ممکن رہے”۔ بصورت دیگر روس اور یوکرائن سمیت پورے خطے کو تباہی سے بچانا ناممکن ہو جائے گا۔
قالن نے ترکی اس پالیسی کا اعادہ کیا جو وہ مغرب اور امریکہ کی جانب سے روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں پر تنقید کر رہا ہے اور انہوں نے کہا کہ ایسے کسی بھی قدم کا اصل مقصد جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے نا کہ تناؤ میں اضافے مقصد ہو۔
انہوں نے ترکی کی پالیسی مزید واضع کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارا ابھی کسی پر بھی پابندیاں لگائے یا اپنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے… ہم خود کو کسی ایسی پوزیشن میں نہیں دھکیلنا چاہتے جہاں ہم جنگ میں ایک فریق بن کر رہ جائیں۔ ہمیں دونوں فریقوں سے بات کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔”
ترکی نے دفاع، توانائی اور تجارت میں روس کے ساتھ قریبی تعاون رکھا ہوا ہے اور روسی سیاحوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ لیکن، اس نے یوکرائن کو ڈرون بھی فروخت کر رکھے ہیں جو اس جنگ میں یوکرائن کے لیے اہم ثابت ہو رہے ہیں، تاہم اس سے ماسکو ناراض ہے، اس کے علاوہ ترکی؛ شام، لیبیا میں روسی پالیسیوں اور 2014ء میں روس کی جانب سے کریمیا کے الحاق کی بھی مخالفت کرتا ہے۔
ترکی نے کہا ہے کہ وہ یوکرائن اور روس کے وزرائے خارجہ کو اگلے ہفتے جنوبی ترکی کے شہر انطالیہ میں ہونے والے ڈپلومیسی فورم میں بات چیت کے لیے اکٹھا کرنا چاہتا ہے۔ یوکرائن اور روس دونوں نے اس طرح کے مذاکرات کے لیے کھلے دل کا اظہار بھی کیا ہے۔
صدر ایردوان، اکثر صدر پوتن کے ساتھ اپنے تعلقات کو سراہتے رہے ہیں، دونوں رہنماؤں نے آخری بار 23 فروری کو بات چیت کی تھی، اس سے ایک دن قبل روس نے یوکرائن پر حملہ کرتے ہوئے فوجیں بھی داخل کر دی تھیں۔