یورپی یونین کی پابندیاں ترکی کے لیے بڑا مسئلہ نہیں، صدر ایردوان
صدر رجب طیب ایردوان نے یورپی یونین کی جانب سے ترکی پر ممکنہ پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی ایسی دھمکیوں اور پابندیوں کا عادی ہے، اس لیے بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔
آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ‘جشنِ فتح’ میں شرکت کے لیے روانہ ہونے سے پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی پر مجوزہ پابندیاں ہمارے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔ وہ پہلے بھی وقتاً فوقتاً ترکی پر پابندیاں لگاتا رہا ہے۔ "یورپی یونین 1963ء سے ترکی پر پابندیاں لگاتا آ رہا ہے۔ وہ کبھی بھی ایک دیانت دار ساتھی نہیں رہا۔ یونین نے کبھی اپنے وعدے پورے نہیں کیے، لیکن ہم تب سے صبر کے ساتھ منتظر ہیں اور آگے بھی یہی کریں گے۔”
صدر ایردوان کا یہ تبصرہ ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب جمعرات کو یورپی یونین کا ایک اجلاس متوقع ہے، جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ ترکی پر پابندیاں عائد کی جائیں یا نہیں۔ بالخصوص فرانس اور یونان یورپی یونین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مشرقی بحیرۂ روم اور نگورنو-قاراباخ کے معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے ترکی پر پابندیاں لگائے۔
یونانی وزیر اعظم کیریاکوس متسوتاکیس کے حالیہ تبصرے پر صدر ایردوان نے کہا کہ "ایتھنز ہمیشہ ہی مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے سے دُور بھاگتا رہا ہے۔ انہیں تو مذاکرات کی میز چھوڑنے کی عادت ہے۔”
ترک حکام کے مطابق یونان نے مشرقی بحیرۂ روم کے معاملے پر نیٹو کی جانب سے مذاکرات کا مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا تھا اور 9 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ صدر ایردوان نے کہا کہ "لیکن ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور آگے بھی ڈٹے رہیں گے اور مشرقی بحیرۂ روم میں ترکی اور شمالی قبرص کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے۔”
ترک رہنما بارہا زور دے چکے ہیں کہ انقرہ تمام تصفیہ طلب مسائل کو بین الاقوامی قوانین، پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات، مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہے۔ لیکن وہ مشرقی بحیرۂ روم میں کشیدگی کے حوالے سے یورپی یونین کے کردار پر تنقید بھی کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ یورپی یونین کو اتحاد کے نام پر یونان کی بے جا حمایت کرنے کے بجائے منصفانہ رویہ اپنانا چاہیے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ ایتھنز خطے میں توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور زور دیتا ہے کہ اس کے بحری حدود کے دعوے ترکی کی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں۔ ترکی یہ بھی کہتا ہے کہ جزیرہ قبرص کے قریب واقع توانائی کے وسائل کو ترک جمہوریہ شمالی قبرص اور یونانی قبرص کے درمیان منصفانہ انداز میں تقسیم ہونا چاہیے۔
ترکی-امریکا تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے صدر ایردوان نے کہا کہ وہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ "ہم اوباما دور سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ہم نیٹو میں امریکا کے ساتھ ہیں لیکن اس کی حالیہ پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے فی الحال دو طرفہ تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔”
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ترکی کے حوالے سے چند متنازع بیانات دیے تھے اور انہیں ترکی کے داخلی معاملات میں مداخلت پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
دورۂ آذربائیجان کے حوالے سے صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی نے آذربائیجان کے ساتھ مل کر نگورنو-قاراباخ کو آرمینیا کے قبضے سے چھڑوایا۔ ہماری مدد آئندہ بھی آذربائیجان کے ساتھ رہے گی۔
آذربائیجان کا تقریباً 20 فیصد علاقہ تقریباً تین دہائیوں سے آرمینیا کے غیر قانونی قبضے میں تھا۔ 27 ستمبر کو شروع ہونے والی کشیدگی میں آذربائیجان نے بیشتر حصہ آزاد کروا لیا ہے کہ جو اس نے 1991ء سے 1994ء تک جاری رہنے والی جنگ میں کھویا تھا۔ اُس جنگ میں تقریباً 30 ہزار افراد جان سے گئے تھے اور لاکھوں بے گھر ہوئے تھے۔
اب حالیہ 44 روزہ جنگ میں آذربائیجان نے کئی شہر اور تقریباً 300 علاقے اور دیہات کو آرمینیا کے قبضے سے چھڑوائے ہیں۔