مشرقی بحیرۂ روم، ایگزون اور قطر انرجی ترکی کی حدود سے دُور رہیں گے

0 429

ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے کہا ہے کہ امریکا اور قطر نے ترکی کو یقین دلایا ہے کہ ایگزون موبل اور قطر انرجی مشرقی بحیرۂ روم میں اس کی بر اعظمی حدود (continental shelf) سے دُور رہیں گے۔

مولود چاؤش اوغلو کا یہ تبصرہ ان اداروں کو متنازع پانیوں میں تیل و گیس کی تلاش کے لائسنس ملنے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔

قبل ازیں انقرہ نے یونانی قبرص کی انتظامیہ پر الزام لگایا تھا کہ اس نے لائسنس دے کر اس کی بر اعظمی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور کہا کہ وہ اپنی حدود کے اندر کسی کو بھی قدرتی وسائل کی غیر قانونی تلاش نہیں کرنے دے گا۔

یونانی قبرص کی انتظامیہ نے اس دعوے کو مسترد کیا اور اپنا کام جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

یہ لائسنس یونانی قبرص کے خود ساختہ خصوصی اقتصادی علاقے (EEZ) کے "سیکشن 5” کے لیے دیا گیا ہے، جو جزیرے کے جنوب اور جنوب مغرب میں ہے جو ترکی کی بر اعظمی حدود کے اندر آ جاتا ہے۔

چاؤش اوغلو نے پارلیمان میں اپنی وزارت کے بجٹ مذاکرات میں کہا کہ چاہے کوئی بھی ہو، وہ ہماری اجازت کے بغیر ہماری بر اعظمی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں دونوں ممالک امریکا اور قطر نے ضمانت دی ہے کہ وہ ہماری بر اعظمی حدود میں داخل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ادارے ترکی کی اعلان کردہ بر اعظمی حدود کے جنوب میں رہیں گے۔

ایگزون موبل اور قطر انرجی نے ترکی کی مخالفت کے باوجود جمعے کو تیل و گیس کی تلاش اور پیداوار کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ توقع ہے کہ یہ ادارے اگلے سال کی پہلی شش ماہی میں تلاش کا کام شروع کریں گے۔

ترکی مشرقی بحیرۂ روم میں سب سے طویل ساحلی پٹی رکھتا ہے، جو یونان اور یونانی قبرص کے سرحدی حدود کے دعووں کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ دعوے ترکی اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص دونوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

ترکی رہنماؤں نے بارہا زور دیا ہے کہ انقرہ خطے کے تمام تصفیہ طلب مسائل بین الاقوامی قوانین، اچھے ہمسایانہ تعلقات، مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ البتہ وہ مشرقی بحیرۂ روم کے معامے پر یورپی یونین کے کردار پر تنقید بھی کرتا آیا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اتحاد اس تنازع کے حوالے سے منصفانہ رویہ اختیار کرے اور محض یورپی یونین کی یکجہتی کے نام پر یونان کی بے جا حمایت ترک کرے۔

انقرہ نے اپنی حدود میں اپنے ڈرل شپس بھیج رکھے ہیں تاکہ وہ اپنے اور ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: