گلابی مسجد سے ترک کمروں تک: یورپی طرز تعمیر پر عثمانی اثرات

0 3,436

‏18 ویں صدی مشرق اور مغرب کے درمیان زبردست کشمکش کا عہد تھا۔ مشرق کا نام آتے ہی یورپ میں سب سے پہلے جس کی طرف سب سے پہلے خیال جاتا تھا،وہ سلطنت عثمانیہ تھی۔ سلطان سلیمان اوّل کے دور میں فرانس اور عثمانیوں کے مابین بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات ایک مثبت پیش رفت تھی، لیکن اس سے پہلے سلطنت عثمانیہ کا نام مغربی ذہنوں میں خوف پیدا کرتا تھا۔

محاصرہ ویانا 1683ء کی ناکامی کا مطلب تھا سلطنت عثمانیہ اپنی فطری سرحدوں تک پہنچ چکی ہے۔ جنگ کے بعد نئی فتوحات رک گئیں اور موجودہ زمینوں کی حفاظت کا دور شروع ہو گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے خوف نے تجسس کی نئی راہیں کھولیں۔

1700ء کی دہائی میں عثمانی سفیروں کے فرانس کے دورے یورپی کلچر پر عثمانیوں کےزبردست اثرات کے حوالے سے مؤثر ثابت ہوئے۔ ترک فیشن (Turquerie) کو فروغ ملنے کا اہم عنصر سفیر محمدچلبی کی آمد تھی جو 1721ء میں فرانس بھیجے گئے تھے۔

اس دور کو مؤرخین گل لالہ یعنی ٹیولپ کا عہد کہتے تھے جو سلطنت عثمانیہ میں ثقافت و فنون کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس زمانے کی اشکال (motifs) کہ جن میں گل لالہ کو اہمیت حاصل تھی، نے مغرب میں بہت دور دور تک اثرات مرتب کیے۔

محمد چلبی اور ان کے ساتھیوں کی آمد نے عثمانی جمالیات کی نفاست کے تمام عناصر پر روشنی ڈالی۔ان کے دورے سے ترک فیشن پیرس میں مقبول ہو گیا۔ بعد ازاں یہ رحجان پیرس سے پورے یورپ میں پھیل گیا، اتنا زیادہ کہ 18 ویں صدی کے لندن میں "دیوان کلب” کھل گیا جو ان افراد کے لیے تھا جو سلطنت عثمانیہ کی سیاحت کر چکے تھے۔

آج ہمیں کئی فن پاروں میں Turquerie کے اثرات نظر آتے ہیں – مصوری سے لے کر موسیقی اور طرز تعمیر سے لے کر سامان آرائش تک میں۔

وسطی یورپ میں عثمانی اثرات بہت زیادہ تھے، خاص طور پر جرمنی کی شہری ریاستوں اور آسٹرین سلطنت میں۔ کیونکہ سلطنت عثمانیہ کی بیشتر فتوحات اسی علاقے میں ہوئی تھیں۔ اس لیے وسطی یورپ کے حکمرانوں میں عثمانیوں کے واقفیت ہر لحاظ سے بہت زیادہ تھی۔

ترک افواج جنگ ویانا کے بعد خیمے، ہتھیار اور کئی قیمتی اشیاء چھوڑ گئی تھیں، جنہیں حاصل کرنے کا شوق یورپ کے نوابوں میں بہت زیادہ تھا۔ بعد ازاں یہ شوق ترک اشیاء جمع کرنے کی صورت میں مزید بڑھ گیا۔

سب سے پہلے Saxony کے شہزادےفریڈرک کرسچن نے جرمنی میں اپنے شاہی محل کے ایک خاص طور پر تیار کردہ حصے میں اپنے خاندان کے مشرقی ہتھیاروں کی نمائش کی۔ اس سے یورپ میں مشرقی کے بارے میں تجسس مزید بڑھا، اور دوسرے حکمران بھی اسی رستے پر چل پڑے۔ یہیں سے کمروں کو ترکی انداز میں سجانے کارواج بھی شروع ہوا۔

ترک کمرہ

خاص طور پر ڈیزائن کیے گئے کمروں میں عثمانیوں سے جنگوں میں حاصل کردہ سامان لازماً رکھا جاتا۔ انہوں نے نہ صرف ان کمروں میں جنگی ساز و سامان رکھا بلکہ کمروں کی سجاوٹ بھی عثمانی انداز میں کی جانے لگی۔

مشہور فرانسیسی ملکہ میری انتونے، جو 1789ء میں انقلاب فرانس میں ماری گئی تھی، کا اپنا ترک انداز کا کمرہ بھی تھا۔ گو کہ اس کمرے میں یورپی انداز بھی استعمال کیا گیا تھا لیکن ترک نقوش اور نمونے بھی ظاہر تھے۔

انقلاب فرانس کے ساتھ ہی ملک میں Turquerie کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ کمرہ 18 ویں صدی میں فرانس میں ترک اثرات کی آخری علامت تھا۔

اٹھارہویں صدی میں جرمنی بہت سی آزاد شہری ریاستوں کا مجموعہ تھا۔ ان میں سب سے نمایاں چارلس تھیوڈور کی ریاست باویریا تھی۔ انہوں نے ریاست میں بہت سی تعمیرات کروائیں۔ جن میں سے ایک Schwetzingen محل بھی تھا جو ریاست کے شہزادوں کی گرمائی رہائش تھی۔ انہوں نے فرانسیسی ماہر تعمیرات نکولا دی پیژاژ سے محل کے باغ میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی۔ جس سے مختلف ثقافتوں میں ان کی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ تھیوڈور اپنے تحقیق کے شوق، رواداری، علم اور جمالیاتی حس کی وجہ سے مشہور تھے۔

Schwetzingen کی گلابی مسجد محض ایک جمالیاتی اضافہ تھا، عبادت کے لیے نہیں تھی۔ یہ 1795ء میں مکمل ہوئی اور یہ اس محل کا سب سے دلچسپ و عجیب حصہ تھی کیونکہ اس سے مشرقی کی جھلک نظر آتی تھی۔ اس عمارت میں صرف ایک بار عبادت ہوئی جب 20 مئی 1961ء کو ترک کارکنوں نے یہاں عید کی نماز ادا کی۔

آج بھی اس مسجد کی دیواروں پر عربی اور جرمن زبانوں میں مختلف اقوال لکھے ہوئے ہیں جیسا کہ "دولت اور دنیا عارضی ہے، نیک اعمال ہمیشہ رہنے والے ہیں،” "بے وقوف نصیحت کو دشمنی سمجھتا ہے،” "کانٹوں کو پانی پھولوں کی وجہ سے ملتا ہے،” اور "خراب صحبت سے تنہائی زیادہ بہتر ہے” وغیرہ۔ آج یہ عمارت ایک عجائب گھر کے روپ میں موجود ہےاور سب کا خیر مقدم کرتی ہے۔

‏Schwetzingen مسجد کا اندرونی منظر
تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: