پاک-ترکی آزاد تجارت کا معاہدہ، دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات کو فروغ دے گا

0 1,319

طویل عرصے سے پاکستان اور ترکی کے مابین آزاد تجارت کے معاہدے (فری ٹریڈ ایگریمنٹ) پر دستخط اور ایک عملی منصوبے (ایکشن پلان) پر رضامندی کا انتظار کیا جا رہا ہے، جو کاروباری نمائندگان کے مطابق دو طرفہ تجارتی ہدف تک پہنچنے میں مدد کے علاوہ دونوں ممالک کے تجارتی حجم کی رفتار بڑھانے کے بھی کام آئے گا۔

پچھلے سال صدر رجب طیب ایردوان کے دورۂ اسلام آباد کے موقع پر دونوں ممالک نے جلد ہی دو طرفہ تجارت کے حجم کو 1 ارب ڈالرز تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا تھا اور ساتھ ہی 2023ء تک 5 ارب ڈالرز کا حتمی ہدف مقرر کیا تھا۔

دونوں ممالک اسٹریٹجک اکنامک فریم ورک (SEF) رکھتے ہیں، جس کا مقصد اشیا کے تبادلے کو بہتر بنانا ہے۔ اس میں 71 قابلِ عمل اقدامات شامل ہیں، مثلاً آزاد تجارت کا معاہدہ، ٹیکنالوجی کی منتقلی، صلاحیتوں کو بہتر بنانا اور دفاعی تعاون۔ خارجہ اقتصادی تعلقات کے بورڈ (DEIK) ترکی-پاکستان بزنس کونسل کے چیئرپرسن احمد چنگیز اوزدیمر نے کہا کہ SEF کے علاوہ ایک ایکشن پلان اور تجارتی و سرمایہ کاری تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے دفعات بھی طے کی گئی ہیں جو باہمی تجارت کو تحریک دیں گی۔

دونوں ممالک حالیہ چند سالوں سے گہرے سماجی و معاشی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اُن کی باہمی تجارت کا حجم 600 ملین ڈالرز سے بڑھ کر 800 ملین ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے۔ 2020ء میں ترکی اور پاکستان کا تجارتی حجم 889 ملین ڈالرز تھا جو اوزدیمر کے خیال میں دونوں ممالک کی حقیقی معاشی صلاحیتوں کو ظاہر نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری دنیا سے تعلق رکھنے والے عرصے سے آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس سے دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری تعلقات کو فائدہ پہنچے گا اور زبردست معاشی تحریک کی راہ ہموار کرے گی۔

ترکی کے ساتھ گہرے تاریخی تعلقات کے علاوہ اوزدیمر نے پاکستان کی نوجوان آبادی اور ایشیا میں اُس کے محلِ وقوع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان انفرا اسٹرکچر اور توانائی سمیت کئی صنعتوں میں اہم مواقع پیش کرتا ہے۔ "یہ تمام عوامل پاکستان کو ترکی کی کاروباری شخصیات کے لیے اہم مارکیٹ بناتے ہیں۔”

اوزدیمر نے زراعت کے شعبے کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں پر خاص طور پر زور دیا اور کہا کہ زرعی اشیا کی مارکیٹ 2018ء میں 22.1 ارب ڈالرز کی تھی اور اندازہ ہے کہ 2023ء تک 35 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔ "ترکی پاکستان کی کُل درآمدات میں صرف 0.8 فیصد کا حصہ رکھتا ہے۔ یہ بہت ہی کم ہے خاص طور پر اگر دونوں ملکوں کے گہرے تعلقات کو مد نظر رکھیں ۔ پاکستان کی 10.5 فیصد کُل درآمدات فوڈ سیکٹر سے ہوتی ہیں۔ اس لیے اوزدیمر نے زور دیا کہ ترکی کی کاروباری شخصیات کے لیے خاص طور پر فوڈ اور مشروبات کی صنعت اور متعلقہ ٹیکنالوجی میں مواقع ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ

"پاکستان کی درآمدات میں مشینری کو بہت اہمیت حاصل ہے اور میرے خیال میں پاکستان کی مشینری درآمدات میں ترک اداروں کا حصہ بہتر ہو سکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہمارے ادارے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ زرعی مشینری برآمد کر سکتے ہیں، خاص طور پر زرعی پیداوار بڑھانے کے حوالے سے۔”

اوزدیمر نے پاکستان میں تعمیراتی صنعت کے آگے بڑھنے صلاحیتوں کا بھی حوالہ دیا جو 2018ء میں 26.7 ارب ڈالرز سے بڑھتے ہوئے 2023ء تک تقریباً 35 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے خاص طور پر چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا ذکر بھی کیا، جو پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے منصوبوں کا مجموعہ ہے۔ اوزدیمر نے زور دیا کہ "ترک اداروں کو سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچے، ڈیموں، سڑکوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔”

بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں سی پیک کے اثرات اور ترک کاروباری اداروں کو دستیاب مواقع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غیر ملکی اداروں کے لیے بھی مواقع موجود ہیں، خاص طور پر سڑکوں اور ریلوے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، جدید گوداموں، ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے منصوبوں، نقل و حمل کی ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی اور تیاری کے شعبوں میں۔ "اب تک ترک تعمیراتی ادارے پاکستان میں 3.4 ارب ڈالرز کے 68 منصوبوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ اس شعبے میں دیکھیں تو پاکستان میں گھروں کی تعمیر کا شعبہ صنعت میں 51.3 فیصد کا حصہ رکھتا ہے۔”

اوزدیمر نے زور دیا کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے اور ملک کو سالانہ تقریباً 7 لاکھ نئے رہائشی مکانوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے دفاع کے شعبے میں تعاون کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ "دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے اہم شعبوں میں سے ایک دفاعی صنعت بھی ہے۔ خاص طور پر سرکاری معاہدوں میں، جو نجی شعبے کی آمد سے پہلے راستہ کھول رہے ہیں، ہم نے دیکھا کہ ہم پاکستان میں اس شعبے میں اچھی مارکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔”

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: