دیباچہ – [عدل رکھنے والی اک دنیا بنانا ہے ممکن]

آج دنیا جس چیز کی سب سے زیادہ محتاج ہے وہ انصاف ہے۔ وہ عالمی ادارے جنہیں عالمی انصاف قائم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، بدقسمتی سے آج انہیں خود انصاف کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے دور میں جب رحمدلی گم ہو چکی ہے، ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انصاف اور ضمیر کی آواز بنیں۔

آزادانہ طور پر لکھی گئی یہ کتاب، ترکی کی طرف سے پوری انسانیت کے لیے انصاف کی تلاش کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ ہم دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں، امتیازی سلوک اور دوہرے معیارات کو اقوام متحدہ کی مثال سے واضع کرتے ہیں۔ خاص طور پر ہم سلامتی کونسل کے لیے ایک جامع اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جو اس وقت "صرف پانچ ممالک کی ویٹو پاور کے ساتھ انہی کے مفادات کے گرد گھومتی ہے”۔ ہم عالمی ناانصافی، مہاجرین کے بحران، بین الاقوامی دہشت گردی اور اسلام دشمنی کے عنوانات کے تحت عالمی سیاست کے المیوں کی نشاندہی کریں گے۔ ہم اقوام متحدہ کی قانونی حیثیت، فعالیت، موثر کردار اور شمولیت، نمائندگی اور فیصلہ سازی کو ان مسائل کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہم اقوام متحدہ کے لیے ایک اصولی، جامع، تزویراتی اور قابل اطلاق اصلاحتی تجاویز پیش کرتے ہیں، ایک ایسی اقوام متحدہ جہاں منصفانہ نمائندگی یقینی ہو اور ویٹو کا استحقاق ختم کر دیا جائے۔

اقوام متحدہ کا قیام، دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی امن کے ضامن کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ تاہم، بدقسمتی سے آنے والے وقتوں میں یہ انسانیت کے لیے امن اور فلاح و بہبود جیسی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ ان مقاصد سے دور ہوتی چلی گئی۔ یہ ایک ایسے ڈھانچے میں تبدیل ہو گئی جو پوری دنیا کے نہیں بلکہ طاقتوروں کے مفادات کی ضمانت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ بوسنیا، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہی، دوسری طرف عالمی قوانین نے اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات پر کبھی بھی اسے کوئی سزا نہیں دی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس وقت سلامتی کونسل کا ڈھانچہ ایسا ہوتا کہ اس میں پوری دنیا کی منصفانہ نمائندگی موجود ہوتی تو دنیا میں ایسی ناانصافی اور تباہی دیکھنے کو نہ ملتی۔

آج دنیا کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مختلف ممالک اور عالمی استحکام کے لیے خطرہ بننے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف منافقانہ اور غیر مخلصانہ رویہ اپنایا جاتا ہے۔ انسانیت کو دئیے جانے والے دکھ، نوشتہِ دیوار ہونے کے باوجود جب تک ان دہشت گرد تنظموں کی مدد کرنے کی کج رو سوچ ختم نہیں کی جاتی، دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کامیاب عالمی جنگ لڑنا ممکن ہی نہیں ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ انسانیت کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

مغرب میں ابھرتی ہوئی اسلام دشمنی، بلکہ زیادہ وضاحت کے ساتھ کہا جائے تو مسلمان دشمنی، یہ واضع کرتی ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام سے پیدا ہونے والے مصائب سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت کہ بعض ممالک میں اسلام مخالف طرز عمل کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور انہیں مختلف قوانین کے ذریعے جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ بھی اس خطرے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ عالمی امن اور انسانیت کے سکون کے لیے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اس اہم مسئلے پر اقدامات اٹھائے اور انہیں روکنے کے لیے تدابیر اختیار کرے۔ تاہم تنظیم (اقوام متحدہ) کے موجودہ مسائل زدہ ڈھانچے کے ساتھ ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ ماضی کی ضروریات کے مطابق تشکیل پانے والے اداروں سے آج کے مسائل حل نہیں ہو سکتے ہیں بلکہ یہ واضع ہو چکا ہے کہ یہ ادارے ان مسائل کو بڑھاتے ہیں۔

سلامتی کونسل کے موجودہ ڈھانچے میں دنیا کی تین چوتھائی آبادی غیر موثر اور بے اختیار ہے۔ 8 ارب عوام کی قسمت کو پانچ غیر جواب دہ ممالک کے رحم و کرم، لالچ، مفادات اور خواہشات پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ صورت حال نہ تو منصفانہ ہے اور نہ ہی پائیدار۔

ہمارے نظریہ کے مطابق، یہ انصاف ہی ہو گا جو دنیا میں استحکام، نجات اور خوشی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ عدل رکھنے والی ایک دنیا کے قیام کیلئے، امید اور اعتماد دینے والے ایک ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے۔ تمام تر خامیوں کے باوجود، اگر اقوام متحدہ میں اصلاحات لائی جاتی ہیں تو اس ورلڈ آرڈر کی جانب بڑھنے کا موقع پیدا ہو سکتا ہے۔ ترکی کی حیثیت سے ہم ہر موقع پر اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ خاص طور پر سلامتی کونسل کے ڈھانچے اور عملداری میں جامع اصلاحات کے مطالبات دہراتے آئے ہیں۔ جب تک ایک ایسا نظام قائم نہ ہو جائے جہاں طاقت رکھنے والے حق پر ہونے کی بجائے حق رکھنے والے طاقتور نہ ہوں، ہم کہتے رہیں گے "دنیا پانچ سے بڑی ہے”۔

رجب طیب ایردوان

2021ء

%d bloggers like this: