ہماری مقدس اقدار پر حملوں کے ہوتے ہوئے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام پر متحد ہو جائیں، صدر ایردوان
MAS کنونشن 2020ء سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "ہماری مقدس اقدار پر حملوں کے ہوتے ہوئے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام کی مشترک بنیاد پر متحد ہو جائیں۔ ایک مسلمان بے انصاف نہیں ہو سکتا، اس لیے اسے کسی کو بھی اپنے حقوق، قانون اور وقار کو غصب نہیں کرنے دینا چاہیے۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے مسلم امریکن سوسائٹی (MAS) کے 2020ء کنونشن کے لیے ویڈیو پیغام بھیجا۔
صدر ایردوان نے کہا کہ "میں آپ کو ترکی میں موجود اپنے 8 کروڑ سے زیادہ بھائیوں اور بہنوں کی جانب سے مبارکباد کے ساتھ آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کے ذریعے سے میں دنیا بھر میں اپنے بھائیوں ، بہنوں اور دوستوں سے کو بھی سلام پیش کرنا چاہتا ہوں، ان مظلوم و مقہور افراد کو بھی جو پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس اجلاس کی جانب دیکھ رہے ہیں۔” انہوں نے مسلم امریکن سوسائٹی کے 23 ویں سالانہ اجلاس کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
"جن علاقوں سے ہم دلی لگاؤ رکھتے ہیں، وہاں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے”
اس وقت انسانیت کو صحت کے ایک بڑے بحران، کرونا وائرس کی وباء، کا سامنا ہے، اس طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ہر روز ہمیں کسی عزیز، رشتہ دار، پڑوسی یا کسی پرانے دوست کی وفات کی خبر ملتی ہے کہ جس کے ساتھ ہمیں بہترین وقت گزارا ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی میں ہمیں کسی کی موجودگی اور کسی کی عدم موجودگی سے آزمایا جاتا ہے، ہم ان کی جدائی بھی برداشت کی ہے کہ جن کا جانا کلیجہ چیر دیتا ہے، اور ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ ہمیں اور سب کو اس وباء سے ممکنہ حد تک محفوظ رکھے۔”
"اس مذہب کے ماننے والوں کی حیثیت سے کہ جو مایوسی اور ناامیدی کو کفر سمجھتا ہے، ہم کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا، نہ پہلے اور نہ اب۔ باہمی اتحاد کی طاقت اور مل بانٹنے کی برکات پر یقین رکھتے ہوئے ہم پورے عزم، احتیاط اور قوتِ ارادی کے ساتھ یہ لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہر آزمائش ایک انتباہ بھی ہے۔ اس وباء نے ہمیں نہ صرف اپنی بندگی اور لاچاری کا احساس دلایا ہے، بلکہ یہ بھی کہ مذہب، زبان، نسل، رنگ اور ملک سے قطع نظر پوری انسانیت کی منزل اور غم مشترک ہیں۔ اس لیے ہم نے ‘خیر الناس من ینفع الناس ‘ پر عمل کرتے ہوئے کہ ‘تم میں بہترین وہ ہو جو دوسرے انسانوں کے لیے اچھا ہے،’ انسانیت کے لیے ممکنہ حد تک تمام وسائل استعمال میں لائے۔ اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے مدد کا مطالبہ کرنے والے 156 ملکوں اور9 بین الاقوامی انجمنوں کو بلا امتیاز طبّی سامان اور امداد فراہم کی۔ فلسطین سے صومالیہ، یمن سے لیبیا، ریاست اراکان سے افغانستان، گیانا سے لبنان اور پاکستان تک، ہم نے اپنے ان تمام بھائیوں اور بہنوں کو امداد دی، جن کے ساتھ ہمارے دل جڑے ہوئے ہیں۔”
صدر نے کہا کہ ہم نے 28 اپریل اور یکم مئی کو طبی امداد سے لدے ہوئے دو طیارے امریکا بھیج کر وہاں کووِڈ-19 کے خلاف جدوجہد کرنے والے صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کی مدد کی۔
"جمہوریت کا گہوارہ سمجھے جانے والے ممالک میں اب ثقافتی نسل پرستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اسے چھپایا نہیں جا سکتا”
صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم نے ‘پبلک ڈپلومیسی’ یا ‘کروناوائرس ڈپلومیسی’ کے طور پر مدد نہیں کی بلکہ ہم اسے اپنے عقیدے، ایمان اور اسلام پر یقین کی وجہ سے کرتے ہیں۔” اس دوران برادری میں واقعی قابلِ ستائش کام کیا اور وبائی امراض کی وجہ سے اپنے گھر سے نہ نکل پانے والے بزرگوں کی ضروریات پوری کرنے سے لے کر آن لائن نفسیاتی تعاون تک بہت سے اہم کام انجام دیے۔
صدر نے کہا کہ "اس سال ہم نے کووِڈ-19 وائرس کے ساتھ ساتھ "اسلاموفوبیا کے وائرس” کا بھی مقابلہ کرنا تھا کہ جو کہیں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان ممالک میں کہ جنہیں جمہوریت کا گہوارا سمجھا جاتا تھا، گزشتہ چند برسوں میں ثقافتی نسل پرستی، امتیازی سلوک اور عدم برداشت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب اس کو چھپایا نہیں جا سکتا۔”
اسلاموفوبیا اور زینوفوبیا ایک ایسا رحجان بن چکے ہیں جو سیاست میں گھس چکا ہے، روزمرہ زندگیوں کو پیچیدہ بنا رہا ہے اور ریاستی پالیسی کی رہنمائی کر رہا ہے۔ بہت سے ملکوں میں یہ عام ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کو ان محض ان کے عقیدے، زبانوں، ناموں یا ان کی موجودگی کی وجہ سے پسماندہ رکھا جائے۔”
"مقدسات کی بے حرمتی کا آزادئ اظہار سے کوئی تعلق نہیں ہے”
اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ سوئیڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنا، ناروے میں پھاڑنا، فرانس میں آزادئ صحافت کے نام پر پیغبرؐ کے توہین آمیز کارٹونوں کو پھیلانا ہماری مقدس اقدار پر حملے کی چند اقسام ہیں، صدر ایرودان نے نیوزی لینڈ، کینیڈا اور چیپل ہل میں مسلمانوں پر ہونے والے حملے یاد دلائے۔
اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ دائیں بازو کے گروہ افریقی اور ایشیائی تارکینِ وطن کے ساتھ ساتھ ترکوں، یہودیوں اور مسلمانوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں، صدر ایردوان نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ نظریاتی جنون، جو کسی طرح داعش اور FETO سے مختلف نہیں، مسلسل پنپ رہا ہے، یہاں تک کہ سربراہِ مملکت کی سطح پر بھی اس کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ آپ نے حالیہ دنوں میں فرانس میں آزادئ اظہار کی آڑ میں ہمارے پیارے نبیؐ کی ذاتِ اقدس پر حملے دیکھے ہی ہوں گے۔ مقدسات کی بے حرمتی کا آزادئ اظہار سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ خیالات الگ چیز ہیں اور توہین ایک الگ معاملہ ہے۔ توہین کو خیال کے طور پر پیش کرنا خود خیال کی توہین ہے۔ جو قرآن مجید کو نذر آتش کرنے والوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں، ہمارے نبیؐ کی توہین کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور جو مساجد پر ہونے والے حملوں کو نظر انداز کرتے ہیں، وہ یہ سب آزادی کے نام پر نہیں بلکہ اپنی فسطائیت کو چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔ دیکھیں کہ جو آزادئ فکر اور ابلاغ کی آزادی کے نام پر ہماری مقدس اقدار پر حملے کر رہے ہیں، وہ اپنے بارے میں معمولی سی تنقید بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ کبھی دھمکا کر، کبھی صحافیوں کو جھڑک کر اور کبھی اخباروں پر چھاپے مار کر وہ اپنے مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کو حد میں رکھتے ہیں۔
"ناانصافی اور لاقانونیت کے خلاف خاموش رہنا مسلمان کے لیے مناسب نہیں”
صدر نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی بے عملی اور غفلت ہی وہ بنیادی وجہ ہیں جن کی وجہ سے اسلام اور انسانیت کے دشمن اتنے بے دھڑک ہو گئے ہیں، اور مسلمان نہ صرف معیشت، سیاست، دفاع اور سفارت کاری میں بلکہ خود آپس میں بھی منتشر ہیں۔
جو بھی اپنی نسل، نسب یا جلد کے رنگ کی بنیاد پر اپنے بھائی یا بہن کو حقارت سے دیکھتا ہو، وہ اسلام کی روح اور نبی مہربانؐ کے پیغام کو نہیں سمجھ پایا۔ کیونکہ ہم مسلمان ہیں، جنہوں نے ترک، عرب، فارسی، افریقی، مالے، ہندی یا امریکی ہونے سے بھی پہلے اللہ کے الست بربکم کے سوال پر کہا تھا کہ جی ہاں، آپ ہی ہمارے پروردگار ہیں۔ ہماری مقدس اقدار پر حملوں کے ہوتے ہوئے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام کی مشترک بنیاد پر متحد ہو جائیں۔ ایک مسلمان بے انصاف نہیں ہو سکتا، اس لیے اسے کسی کو بھی اپنے حقوق، قانون اور وقار کو غصب نہیں کرنے دینا چاہیے۔ جس طرح کوئی مسلم تشدد پر یقین نہیں رکھتا، اسی طرح اسے محض تشدد کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے حقوق کو غصب کرنے کی کوشش کرنے والوں کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دینی چاہیے۔ مسلمان ایک مشن کا نمائندہ ہے جو پوری انسانیت کے امن، انصاف، سکون اور بہبود کی ذمہ داری لیتا ہے۔ مسلمان اپنے ماحول پر یقین کی تلقین کرتا ہے اور جس پر لوگ اس کے رویّے اور زبان کی وجہ سے اعتماد کرتے ہیں۔ یہ مسلمان کے لیے کسی کی جان، مال، عزت پر ہاتھ ڈالنا جائز نہیں، بلکہ یہ بھی کہ وہ کسی کے مذہبی جذبات کی وجہ سے اس کا احترام نہ کریں۔ مسلمان کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ وہ ناانصافی اور لاقانونیت کے خلاف خاموش رہے، چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ اپنے بھائی یا بہن سے پیٹھ پھیرنا یا اس کی پیٹھ میں خنجر گھوپنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے۔”
صدر ایردوان نے مزید کہا کہ "ہم مظلوم شامی و یمنی بچوں اور فلسطینی یتیموں کو بھوک اور بیماریوں سے بچانے کے قوانین کا تحفظ کرنے کے بھی پابند ہیں۔ ہمیں اپنی جانوں سے القدس کا دفاع کرنا ہوگا کہ جو ملت اسلامیہ کی حکمت و فضیلت کا مرکز اور آنکھ کا تارا ہے۔ ہم ترکی کی حیثیت سے مختلف اسلامی علاقوں میں چیلنجز سے نمٹ رہے ہیں جو فلسطین سے لیبیا، نگورنو-قاراباخ اسے شام تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم ظالم کے خلاف جم کر کھڑے ہیں؛ ہم مظلوم کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں چاہے اس کی شناخت کوئی بھی ہو۔ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بھرپور جدوجہد کے ساتھ ساتھ ہم اپنی مقدس اقدار کے خلاف کسی بھی حرکت پر ردعمل دکھانے سے بھی نہیں ہچکچائیں گے۔
"ہم مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک متوازن اور شفاف پالیسی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو تمام انسانیت کے لیے ایک مثال ہو”
صدر ایردوان نے کہا کہ ہم مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک متوازن اور شفاف پالیسی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو تمام انسانیت کے لیے ایک مثال ہو۔ "ہم کسی کے عقائد و طرزِ زندگی میں مداخلت نہیں کرتے، ہم اپنے ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو عبادت کی آزادی دینے کی ضمانت دیتے ہیں۔ ایک طرف ہم نے آیا صوفیا مسجد کو اس کی اصل شناخت پر بحال کیا کہ جو 86 سال تک ایک عجائب گھر رہی، تو دوسری جانب سومیلا کی خانقاہ کی بحالی سے بھی غفلت نہیں برتی، کہ جو اپنی 1,600 تاریخ میں ہمارے ملک کی علامتوں میں سے ایک ہے۔”
مسلمانوں میں اتحاد و یکجہتی بڑھنے سے عالمی اکھاڑے میں وہ ایک مضبوط مقام تک پہنچیں گے، اس پر صدر نے کہا کہ "میرے خیال میں اس سال مسلم امریکن سوسائٹی کی جانب سے منعقدہ کنونشن ان کوششوں میں اپنا حصہ ڈالے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ امریکی مسلم برادری زیادہ منظم ہو رہی ہے۔ درحقیقت آج کا اجلاس اس کی بڑی علامتوں میں سے ایک ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم امریکا میں مسلم تنظیموں کے کام کو سراہتے ہیں، خاص طور پر مسلم امریکن سوسائٹی کے کم کو، جس کی وجہ سے ہم آج یہاں جمع ہوئے ہیں۔”
"ہم بخوشی اس بھائی چارے کا حصہ ہیں کہ جو امریکا میں مقیم ترک برادری نے دیگر مسلم گروپوں کے ساتھ قائم کیا ہے۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میری لینڈ ریاست میں دیانت سینٹر آف امریکا بھی امریکا میں مقیم مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی خدمات کے لیے موجود ہے، جس کا افتتاح 2016ء میں ہوا تھا۔
صدر ایردوان نے کہا کہ "پچھلے سال نیو ہیون میں دیانت مسجد پر حملے کے بعد اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے، فوری ردعمل دکھانے اور مسجد کی مرمت میں بھرپور حصہ ڈالنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔”
امریکی کانگریس کے مسلم نمائندگان کے دوبارہ انتخابات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "مجھے امید ہے کہ مسلمان نمائندگان کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھے گی اور یوں مسلم برادری کانگریس اور امریکی سیاست میں زیادہ نمایاں ہوگی۔ میں کہنا چاہوں گا کہ ترک ریاست کی حیثیت سے ہم اس سمت میں مسلم امریکی برادری کے کسی بھی منصوبے کو ہر قسم کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں، جیسا کہ پہلے بھی کرتے رہیں ہے۔ آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے بھائی چارے کو دوام دے اور ہماری محبت کو ہمیشہ برقرار رکھے۔ میرا یقین ہے کہ مسلم امریکن سوسائٹی کے 23 ویں سالانہ کنونشن کے موقع پر بھائی چارے کا جو ماحول بنا ہے وہ امت مسلمہ کے لیے امید کی کرن ہے۔ اللہ آپ لوگوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے، فی امان اللہ، السلام علیکم!”