مہاجرین کی نئی لہر روکنے کے لیے بین الاقوامی تعاون ضروری ہے، صدر ایردوان
صدر رجب طیب ایردوان نے افغانستان سے پیدا ہونے والی مہاجرین کی نئی ممکنہ لہر کو روکنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وہ افغانستان میں تازہ ترین حالات اور مہاجرین کے ممکنہ بحران سمیت دیگر معاملات پر برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن سے گفتگو کر رہے تھے۔
صدر ایردوان نے برطانوی وزیر اعظم کو بتایا کہ افغانستان میں ترکی کی ترجیح اپنے شہریوں کو نکالنا ہے اور اگر اس کی شرائط پوری کی جائیں تو وہ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ صدر نے یہ بھی کہا کہ اگر افغانستان اور ایران میں ضروری احتیاط نہ کی گئی تو مہاجرین کی نئی لہر سے بچنا ناممکن ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مہاجرین کے نئے بحران سے بچنے کے لیے یورپی ممالک سمیت تمام کرداروں کو مخلصانہ طور پر اقدامات اٹھانا ہوں گے کیونکہ اس بحران سے نئے سانحات جنم لے سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانوں کو ان کے ملک اور پڑوسی ریاستوں میں امداد فراہم کی جائے اور اس کے لیے اقوام متحدہ کے اداروں کے فنڈز بڑھائے جائیں تاکہ وہ زیادہ متحرک کردار ادا کر سکیں۔
ترکی کو یورپ میں سیاسی پناہ کے خواہش مندوں کا اہم راستہ سمجھا جاتا ہے، جو جنگ اور مظالم سے بچنے اور ایک نئی زندگی گزارنے کے لیے اپنے ملکوں سے یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ افغانستان میں دو دہائیوں کی جنگ کے بعد امریکی انخلا اور طالبان کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھتے ہوئے مہاجرین کی تعداد میں اضافے کے بعد خدشات بڑھ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد کی نگرانی بڑھا دی ہے اور کئی نئے اقدامات بھی اٹھا رہا ہے۔ سرحدوں کے تحفظ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔
افغانستان میں ترکی کا بطور “پلے میکر” کردار لیکن پاکستان کے ساتھ ہی ممکن ہے
ترکی نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ کسی تیسرے ملک کے فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہاجرین کے بحران کا اضافی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
ترکی اِس وقت بھی تقریباً 40 لاکھ مہاجرین رکھتا ہے، جو دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہیں۔ 2011ء میں شام میں خانہ جنگی چھڑنے کے بعد ترکی نے متاثرہ افراد کے لیے ‘اوپن ڈور پالیسی’ اختیار کی تھی اور انہیں عارضی تحفظ دیا تھا۔
ملک میں شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ تعداد افغانوں کی ہی ہے، جو ایران کے راستے سے ملک میں داخل ہوتے ہیں اور کام کی تلاش یا دیگر یورپی ممالک جانے کے لیے استنبول اور دیگر ساحلی شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
دوسری جانب 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے جاری کردہ بیان کے مطابق گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں امن اور استحکام لانے اور طالبان کے قبضے کے بعد انخلا کا عمل یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
بیان کے مطابق "وزیر اعظم جانسن نے ترک صدر رجب طیب ایردوان سے افغان بحران پر گفتگو کی۔ انہوں نے ملک اور خطے کی صورت حال اور افغانوں کی مدد کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔” دونوں رہنماؤں نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ اقوام عالم کو مہاجرین کے بوجھ کو آپس میں تقسیم کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ صدر ایردوان نے بدھ کو طالبان کے معتدل بیانات کا خیر مقدم کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ترکی امن و استحکام کے لیے تمام فریقین کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ترکی کی فوجی موجودگی بین الاقوامی منظرنامے پر نئی افغان انتظامیہ کے ہاتھ مضبوط کرے گی ۔ ترک صدر نے یہ بھی کہا تھا کہ ترک دستے کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کریں گے اور یقینی بنائیں گے کہ انخلا کے معاملات محفوظ اور پر امن انداز میں مکمل ہوں۔