مغربی سیاستدان اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اسلاموفوبیا کو بطور آلہ استعمال کرتے ہیں، ایردوان

0 1,701

صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ مغربی سیاستدانوں کے لیے اسلاموفوبیا اپنی ناکامیوں کو چھپانے کا ایک آلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے استنبول میں یونین آف انٹرنیشنل ڈیموکریٹس کی خواتین شعبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے مزید کہا، "وہ سیاستدان جو اپنی خارجہ پالیسی میں ناکام ہوجاتے ہیں، اپنے اندر ہی پھنس جاتے ہیں اور اپنے ذاتی دشمنیوں کو اپنے دفاتر کی مدد سے بڑھاتے ہیں، مجھ پر اور مسلمانوں پر حملہ کرکے اپنی عدم استحکام کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں”۔

مسلمانوں یا تاریکین وطن کو نشانہ بنانے کے واقعات تیزی سے شہہ سرخیاں بنتی ہیں کیونکہ ایسے واقعات کی رپورٹنگ سے بھی سفید فام عناصر کی بالادستی ظاہر کی جاتی ہے اور ان کے نظریات اس طرح عوامی سطح پر پہنچائے جاتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں اور تاریکین وطن پر ہونے والے حملوں میں کوئی بڑا گروہ ملوث نہیں بلکہ انفرادی سطح پر اس طرح کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔

اظہار رائے کی آزادی میں پنپنے والا سیاسی برداشت کا ماحول، فار رائیٹ ہمدردوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ اپنی حمایت کو وسعت دے سکیں۔

مثال کے طور پر جرمنی جو 2017ء سے اسلاموفوبیا کے جرائم سے الگ ست ریکارڈ کر رہا ہے۔ 2018ء میں کل 910 جرائم ریکارڈ ہوئے جن میں صرف 48 مساجد پر حملے ہیں جبکہ یہی تعداد سال 2017ء میں 1095 تھی۔ 2019ء میں مسلمان کیمونٹی کے خلاف جرائم کی تعداد 871 تھی۔ 2020ء کے اعداد و شمار تاحال جاری نہین کیے گئے۔

2019ء میں ہر دوسرے دن جرمنی میں کوئی مسجد، یا اسلامک سنٹر یا پھر کوئی مذہبی نمائندہ اسلاموفوبیا کا شکار بن رہا تھا۔ ان میں 90 فیصد واقعات سیاسی طور پر ابھارے گئے جذبات کی وجہ سے درپیش آئے۔ جرمنی کی کل آبادی 81 ملین ہے جو اسے یورپ کا فرانس کے بعد دوسرا بڑا مسلمان آبادی رکھنے والا ملک بناتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد 4.9ملین ہے جن میں 3 ملین کے قریب ترک نسل مسلمان ہیں۔

فرانسیسی سیکولرازم کو عمومی طور پر اسلاموفوبیا کی ایک شکل کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ یہ بات فرانسیسی حزب اختلاف کے ایک رہنما نے ایمانوئل میکرون کی زیرقیادت حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہی تھی، جو حال ہی میں فرانسیسی مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں بنانے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے اور اس نے حال ہی میں حجاب مخالف بل بھی منظور کیا ہے۔

ترک صدر ایردوان نے اس موقع پر مرکزی اپوزیشن پارٹی جمہوری خلق پارٹی (CHP) پر بھی تنقید کی جو ہر معاملے میں یورپ کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہم پریشان ہوجاتے ہیں جب ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو ہماری مخالفت کرنے کے لئے کافر کی تلوار لہراتے ہوئے ہمارے اوپر آتے ہیں”۔ مزید کہا، "ترکی کا ایک ریکارڈ ہے جو کامیابی کے گذشتہ 19 سال پر محیط ہے ہم نے ہمیشہ خواتین اور نوجوان نسل کو اپنا نمائندہ بنایا ہے”۔

ترکی وباء کو شکست دے گا

جہاں تک کورونا وائرس وباء کا معاملہ ہے۔ صدر ایردوان نے کہا، "ہم ان شاء اللہ سب مل کر صفائی، ماسک اور سماجی فاصلوں کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اس وباء کا خاتمہ کریں گے، ان شاء اللہ اللہ تعالی کے اذن سے ترکی اس وباء کے بعد ایک مضبوط ترکی بن کر ابھرے گا۔ ہم احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس وبائی مرض کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، ان لوگوں کی تنقید سے قطع نظر جو قوم کی پریشانیوں سے اپنی سیاسی حمایت کا دروازہ کھولتے ہیں”۔

گذشتہ روز ترکی میں کل 52000 سے زائد کیسز سامنے آئے جن میں تقریباء 2500 کیسز علامتوں کے ساتھ تھے۔ اس اس سے گذشتہ دن جمعہ سے کم تھے جب 56000 کیسز سامنے آئے کیونکہ ترکی کے تمام صوبوں میں کرفیو میں نرمی کی گئی ہے۔ ترکی میں مجموعی طور پر کیسز کی تعداد 3.80 ملین ہے جبکہ گذشتہ روز 248 اموات کے ساتھ ملک بھر میں کل اموات کی تعداد 33,702 ہو گئی ہے۔ گذشتہ دن ملک بھر میں 32,539 مریض صحت یاب ہوئے ہیں جس سے کل صحت بحال ہونے والے مریضوں کی تعداد 3.3 ملین سے زیادہ ہو گئی ہے۔ جمعہ کے روز سے اب تک ترکی میں 41.2 ملین سے زیادہ کورونا وائرس ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔

صدر ایردوان نے مزید بتایا کہ اس وباء کے آغاز سے اب تک دنیا کے 142 ممالک سے تقریباً ایک لاکھ ترک شہریوں کو ترکی لایا گیا۔

روس اور یوکرائن پر مسائل کو حل کرنے پر زور

صدر ایردوان نے کہا کہ "کل ہم نے یوکرائن کے صدر سے ملاقات کی۔ ہماری کوشش ہے کہ روس اور یوکرائن ان کے تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کروانے کی کوشش کریں”۔ صدر ایردوان نے فریقین پر زور دیا کہ وہ یوکرائن روس سرحد کے قریب موجود تناؤ کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترکی کا بنیادی مقصد بحیرہ اسود کے خطے کو امن کی وادی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا، "مشرقی یوکرائن میں تناؤ، بین الاقوامی قوانین اور یوکرائن کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھتے ہوئے، بات چیت کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد بحیرہ اسود کو امن کی وادی بنانا ہے”۔

صدر ایردوان نے ایک بار پھر اعادہ کیا کہ وہ کریمیا کے الحاق کو تسلیم نہیں کرتا اور اس معاملے میں یوکرائن کی حمایت کرتا ہے۔

حال ہی میں روس نے اپنی افواج کو یوکرائن کی سرحد پر بھیجا ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ وہ یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے امریکہ نے بھی بحیرہ اسود میں اپنے دو جنگی بحری جہاز داخل کرنے کے لیے ترکی کو درخواست دے دی ہے۔ تاہم روسی وزیرخارجہ سے کسی بھی جنگ کے امکان کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ روسی افواج جب تک ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ انہیں وہاں رکنا چاہیے، وہیں رہیں گی۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: