استانبول کی آبادی میں پہلی بار کمی

0 693

آبادی کے لحاظ سے ترک ادارۂ شماریات (TurkStat) کے اعداد و شمار گو ایک مایوس کُن تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن استانبول کے حوالے سے کچھ سکھ کا سانس ضرور ملا ہے، ایک ایسا شہر کہ جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ لیکن دسمبر 2020ء میں دیکھا گیا کہ استانبول کی آبادی میں 56 ہزار کی کمی آئی اور شہر میں 1.55 کروڑ لوگ آباد تھے۔

یعنی 2000ء کے بعد پہلی بار ملک کے مالیاتی مرکز اور معروف ترین شہر کی آبادی کم ہوئی ہے۔ اس شہر نے اپنی پوری تاریخ میں ہمیشہ لوگوں گی توجہ حاصل کی ہے، یہاں تک کہ 2000ء میں اس نے 1.1 کروڑ کا ہندسہ عبور کیا اور تب سے اب تک دو دہائیوں کے دوران اس شہر کی ترقی کے ساتھ ساتھ آبادی بھی بڑھتی ہی رہی۔

بہرحال، 20 سال بعد آبادی میں کمی سے شہر کو سکھ کا سانس ملا ہوگا کیونکہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ استانبول میں آبادی کی کثافت ترکی کے تمام 81 صوبوں سے زیادہ، بلکہ کہیں زیادہ ہے۔ یہاں فی مربع کلومیٹرز 2,976 لوگ بستے ہیں جو سب باسفورس کے کنارے ایک بہت چھوٹے سے علاقے میں مقیم ہے۔

واضح رہے کہ ترکی بھر میں فی مربع کلومیٹرز آبادی کی کثافت اوسطاً 109 ہے جبکہ استانبول کے عین مشرق میں واقع صنعتی مرکز کوجائیلی میں یہ شرح 533 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔

ادارۂ شماریات نے استانبول کی آبادی میں کمی کی کوئی وجہ تو بیان نہیں کی، لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ کمی عارضی ہو اور اس کی وجہ کرونا وائرس کی وبا ہو۔ شہر میں کرونا وائرس سے 3,253 لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔

2020ء کے موسم گرما کے اوائل میں جیسے ہی شہروں کے درمیان سفری پابندیاں ختم ہوئیں تو لوگوں کی بڑی تعداد نے بڑے شہروں سے چھوٹے قصبوں کا رخ کیا۔

استانبول وبا کے دوران کرونا وائرس کا گڑھ بنا رہا، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے دوسرے شہروں اور قصبات کا رخ کیا۔ چند شہریوں نے دُور دراز مغربی مضافات کو ترجیح دی لیکن اکثریت نے جنوب کا رخ کیا کہ جہاں ملک کے معروف سیاحتی مراکز موجود ہیں۔

چھٹیوں کے دن قریب آنے کے بعد کئی لوگوں نے اپنے قصبوں میں ہی رہنے کو ترجیح دی، جس کی وجہ اسکولوں میں کلاسز کا نہ ہونا اور گھر بیٹھ کر کام کرنے کے مواقع بڑھ جانا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان عوامل نے بھی استانبول کی آبادی گھٹانے میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔

استانبول انتظامیہ نے ماضی میں متعدد بار مکینوں کو شہر چھوڑنے کی ترغیب دی ہے، لیکن یہ شہر نہ صرف اناطولیہ سے آنے والوں کے لیے بلکہ غیر ملکیوں کے لیے بھی ایک مقناطیسی کشش رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ پھیلتا جا رہا ہے۔ روزگار کے مواقع کی تلاش میں آنے والوں کے ساتھ یہاں تعمیراتی انقلاب بھی آیا اور یوں شہر کے یورپی اور ایشیائی علاقوں میں مضافاتی علاقے بڑھتے ہی چلے گئے۔

جہاں تک ملک کے دوسرے علاقوں کا معاملہ ہے تو اعداد و شمار نے آبادی میں اضافہ تو ظاہر کیا ہے، لیکن اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی ضرور دکھائی ہے۔

گزشتہ سال ترکی کی آبادی 8.36 کروڑ تھی، جس میں مزید 4,59,365 افراد کا اضافہ ہوا۔ البتہ آبادی بڑھنے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ 2019ء میں یہ رفتار فی ایک ہزار آبادی پر 13.9 تھی جبکہ 2020ء میں یہ گرتے ہوئے 5.5 تک آ گئی ہے۔

صنفی بنیادوں پر دیکھا جائے تو اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عورتوں کی تعداد اب مردوں کے مزید قریب آ گئی ہے۔ اب دونوں کی آبادی میں محض 2,17,608 کا فرق رہ گیا ہے۔

آبادی کے لحاظ سے 2020ء میں استانبول کے بعد اگلے نمبروں پر شہروں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دارالحکومت انقرہ بدستور دوسرے نمبر پر ہے کہ جہاں 56 لاکھ افراد رہتے ہیں جبکہ ازمیر کی آبادی 43 لاکھ ہے۔ صنعتی مرکز بروصہ اور معروف سیاحتی مقام انطالیہ ان کے بعد آتے ہیں۔

بائیبرد، جسے عموماً ملک میں سب سے کم آبادی رکھنے والا شہر سمجھا جاتا ہے، تونجلی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے واقعی ترکی کا سب سے چھوٹا شہر بن گیا ہے۔ اس سال اس شہر کی آبادی 81,910 ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی آباد، یا ملک میں طویل المیعاد رہائش یا کام کی اجازت رکھنے والے غیر ملکیوں کی آبادی میں کمی ہوئی ہے جو 1,97,770 کی کمی کے بعد تقریباً 13 لاکھ تک ہو گئی ہے۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: