اب مہاجرین کی ایک نئی لہر ابھرنے کا خدشہ ہے، ترکی

0 1,733

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ مہاجرین کی ایک نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔

سربیائی ہم منصب نکولا سیلاکووِچ کے ساتھ بلغراد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ترک وزیر خارجہ نے بتایا کہ انقرہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے طالبان اور افغان حکام دونوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کہ میں نے افغانستان پر جی-7 اجلاس میں بذریعہ وڈیو کانفرنس شرکت کی، جس میں کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ ترکی علاقائی معاملات میں نمایاں کردار رکھتا ہے، مولود چاؤش اوغلو نے مزید کہا کہ انقرہ کی بڑی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت قائم ہو۔

انہوں نے کہا کہ "اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ افغانستان میں کیسی حکومت قائم ہوتی ہے۔ دنیا میں مہاجرین کا بحران پہلے سے موجود ہے اور ایک نیا بحران بھی ممکن ہے۔ ہم نے مہاجرین کی لہروں سے بچنے کے لیے اقدامات اور امداد کی فراہمی پر بات کی ہے تاکہ لوگ افغانستان میں مقیم رہیں۔”

چاؤش اوغلو نے کہا کہ "ترکی اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین رکھنے والا ملک ہے، ہمارے پاس مزید مہاجرین کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم نے اب تک اپنی اخلاقی ذمہ داریاں حد سے بڑھ کر نبھائی ہیں۔ ترکی سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ تمام مسائل سے تنہا نمٹے گا۔”

ترکی، افغانستان میں حکومت بننے کے بعد طالبان کو تسلیم کر لے گا، ترک وزیرخارجہ

جنگ زدہ افغان پر طالبان کے قبضے کے بعد یورپی ممالک کے علاوہ ترکی نے بھی مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لیے اقدامات سخت کیے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ ترکی یورپ کے مہاجرین کی قیام گاہ نہیں بنے گا۔ انہوں نے مختلف عالمی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں افغانستان سے مہاجرین کی ایک نئی لہر ابھرنے کو روکنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

ترکی یورپ جانے کے خواہش مند مہاجرین کے لیے اہم راستہ ہے جو جنگوں اور مظالم سے بچنے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے یورپ کا رخ کرتے ہیں۔

انقرہ واضح کر چکا ہے کہ وہ کسی تیسرے ملک کے فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہاجرین کے بحران کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

ترکی دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ مہاجرین رکھتا ہے۔ 2011ء میں شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد ترکی نے پریشان حال افراد کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ اس وقت شامیوں کے بعد ملک میں دوسری سب سے بڑی مہاجر برادری افغانوں کی ہے۔ کئی مہاجرین ایران کے راستے سے آتے ہیں اور کام کی تلاش میں استنبول یا یورپ جانے کے لیے کسی دوسرے ساحلی شہر کا رخ کرتے ہیں۔

ترک افواج اس وقت سرحدوں کی کڑی نگرانی کر رہی ہیں اور ایران کے ساتھ لگنے والی مشرقی سرحدوں پر اقدامات سخت کر دیے ہیں۔ ان میں کھڑی کی گئی ایک دیوار، چوکیوں اور خندقوں کی تعمیر بھی شامل ہیں، جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ یہ تمام اقدامات غیر قانونی مہاجرت کو روکنے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: