کابل ایئرپورٹ کا معاملہ، اونٹ ابھی تک کسی کروٹ نہیں بیٹھا
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو سنبھالنے، چلانے اور اس کی حفاظت کے حوالے سے ترکی کے مشن کا معاملہ ابھی تک حتمی صورت اختیار نہیں کر پایا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اگست میں مذاکرات کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق امریکا اور اس کے علاوہ مشن کا ممکنہ حصہ بننے والے ممالک کے ساتھ مذاکرات کا عمل جاری رہے گا۔ ہوائی اڈے کے ارد گرد کے علاقے کی حفاظت کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ترکی کی ذمہ داری وہی ہوگی، جو وہ گزشتہ چھ سال سے نبھا رہا ہے یعنی محض ہوائی اڈے کا تحفظ اور اسے چلانا۔ ایئرپورٹ کے ارد گرد کے علاقوں کا تحفظ افغان فوج کی ذمہ داری ہوگی۔
صدر رجب طیب ایردوان نے حال ہی میں کہا تھا کہ ترکی امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل کے اس اہم ہوائی اڈے کے معاملات جاری رکھنے پر غور کر رہا ہے اور اس حوالے سے انقرہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ البتہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ طالبا ن کو قبضے کی سیاست چھوڑ دینی چاہیے۔
امریکا اور اس کے اتحادی نائن الیون کے حملوں کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک افغانستان میں موجود رہے جبکہ افغانستان میں چار دہائیوں سے جاری لڑائی کے باوجود اب بھی یہ خطرہ ہے کہ افغان فوج اتحادیوں کی ایئر سپورٹ سے محروم ہو جانے کے بعد بری طرح متاثر ہوگی اور طالبان ایک مرتبہ پھر ملک پر قبضہ کر لیں گے یا پھر کثیر طرفہ خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔
ترکی نے افغانستان میں ہمیشہ غیر جنگی آپریشنز میں حصہ لیا ہے اور اس اہم ہوائی اڈے کی حفاظت کی پیشکش اس لیے کی ہے کیونکہ اب سوال اٹھ رہا ہے کہ ہوائی اڈے اور نقل و حمل کے اہم راستوں کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے گا۔
کابل ایئرپورٹ کی حفاظت شہر میں موجود سفارت خانوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ یہ ہوائی اڈے ایوانِ صدر اور سفارت خانوں کے قریب بہت اہم جگہ پر واقع ہے اور واحد مقام ہے کہ جہاں سے کسی ہنگامی صورت حال میں سفارتی عملے کا انخلا ہو سکتا ہے۔
ترک وزارتِ خارجہ نے اس اہم مشن میں اپنا بوجھ بانٹنے کی بھی بات کی ہے تاکہ افغانستان میں سفارت خانوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے ہوائی اڈے کا مستقبل اور محفوظ آپریشن جاری رہ سکے۔ نیٹو حکام کے ساتھ متعدد ملاقاتوں کے بعد صدر ایردوان نے کہا تھا کہ ترکی اس مشن میں پاکستان اور ہنگری کی شمولیت چاہتا ہے۔
البتہ طالبان انقرہ کی تجویز کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ 2020ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت ترکی سمیت تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکلنا ہوگا۔