دفاعی صنعت میں جو اقدامات ہم نے اٹھائے، وہ کوئی دوسرا ملک نہیں اٹھا سکتا، صدر ایردوان
نمازِ جمعہ کے بعد صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے صدر ایردوان نے ترکی کی جانب سے ایس-400 ڈیفنس سسٹمز کے حصول کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "دفاعی صنعت میں جو اقدامات ہم نے اٹھائے ہیں، کوئی دوسرا ملک نہیں اٹھا سکتا۔ ایسے اقدامات سے ہی ہمارے فیصلے تشکیل پائے ہیں۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے استانبول کی دولمہ باغچہ بزمِ عالم والدہ سلطان مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کے بعد صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دیے۔
یورپی یونین کے ممالک سفر کے لیے ویکسین پاسپورٹس متعارف کروانے کی یونانی تجویز کے حوالے سے ایک سوال پر صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ "یہ ایسا معاملہ ہے جس پر ہماری رائے میں بات ہو سکتی ہے۔ اس معاملے پر بالخصوص بین الاقوامی سفارت کاری کے مطابق بات ہونی چاہیے۔ ایسا کچھ نہیں ہے کہ اس کو صرف اس لیے متعارف کروایا جائے کہ یونان نے ایسا کہا ہے۔ ہمیں وزارتِ امورِ خارجہ کے ساتھ تفصیلاً بات کرنے کی ضرورت ہے۔”
"ہم نے ہمیشہ یورپی یونین کے ساتھ مثبت تعلقات رکھنے کے لیے کام کیا”
25 جنوری کو یونان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ایک سوال پر صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم نے 1963ء سے ہی، ہمیشہ یورپی یونین کے ساتھ مثبت روابط اور تعلقات رکھنے کے لیے کام کیا ہے۔ بدقسمتی سے یورپی یونین نے اب تک اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ اب ہم ایک نئے عمل میں ہیں۔ ہم چارلس مائیکل، ارسلا فون دیر لین، یورپی یونین کے موجودہ سربراہ جرمنی کی چانسلر مرکیل کے ساتھ، بورس جانسن کے ساتھ مشرقی بحیرۂ روم کے حوالے سے اور دیگر یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ متعلقہ پیشرفت کے حوالے سے مذاکرات کے اہم مراحل میں ہیں۔ ان تمام مذاکرات میں وزیر اعظم یونان جناب متسوتاکیس کے ساتھ ملاقات کی درخواست ایسا معاملہ رہا ہے جسے مثبت دیکھا گیا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے بھی اس دوران بات چیت جاری رکھی ہے۔ ہم نے کہا کہ تمہیدی مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔ ہمارے خصوصی نمائندوں کے ساتھ ساتھ میرے اور وزیر اعظم کے مابین بات چیت کے لیے بھی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔”
"دفاعی صنعت میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے دوسروں سے اجازت نہیں لیں گے”
ترکی کی جانب سے ایس-400 ڈیفنس سسٹمز خریدنے پر امریکی انتظامیہ کے اعتراض کے حوالے سے ایک سوال پر صدر ایردوان نے کہا کہ "دفاعی صنعت میں جو اقدامات ہم نے اٹھائے ہیں، کوئی دوسرا ملک نہیں اٹھا سکتا۔ ایسے اقدامات سے ہی ہمارے فیصلے تشکیل پائے ہیں۔”
تر کی کی جانب سے ایس-400 کے دوسرے بیچ کے حصول کے جاری عمل کی جانب توجہ دلاتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "رواں ماہ کے آخر میں ہم روس کے ساتھ نہ صرف دفاعی صنعت کے حوالے سے بلکہ کئی دیگر معاملات پر بھی بات کریں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ بائیڈن انتظامیہ اور دیگر اس معاملے پر کیا کہیں گے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہم دفاعی صنعت میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے کسی سے اجازت نہیں لے سکتے، اس حوالے سے ہمارا طرزِ عمل وہی ہوگا جو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تھا۔”
ترکی نیٹو کا رکن ہے، صدر ایردوان نے زور دیا کہ "نیٹو رکن کی حیثیت سے ہم کسی دوسرے ملک کو، کہ جس کے ساتھ مل کر ہم نیٹو کو تشکیل دیتے ہیں، اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمیں ہدایات دے۔”
ترکی کی جانب سے ادائیگی کے باوجود ایف-35طیاروں کی عدم فراہمی پر زور دیتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "یہ ترکی کے اتحادی کی حیثیت سے امریکا کی بین الاقوامی سفارت کاری کے لحاظ سے انتہائی غلط حرکت ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب بائیڈن انتظامیہ اقتدار سنبھالے گی، تو ہم مثبت اقدامات اٹھاتے ہوئے مذاکرات کے ساتھ ایسے معاملات کو حل کریں گے۔”