صدر ایردوان کا فنِ خطابت – ڈاکٹر فرقان حمید

0 946

ڈاکٹر فرقان حمید پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے انقرہ یونیورسٹی سے ترک زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1994ء میں وہ نہ صرف انقرہ یونیورسٹی میں ماہر زبان تعینات ہوئے بلکہ ٹی آر ٹی کی اردو سروس کے لیے ترجمان کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینا شروع کر دیں۔ وہ کئی اخبارات اور خبر رساں اداروں کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ انہیں کئی بار ترک صدور کے ساتھ ترک اردو ترجمانی کا اعزاز بھی ملا ہے۔ اس وقت وہ پاکستانی نیوز چینل جیو، اخبار جنگ اور ٹی آر ٹی کی اردو سروس کے سربراہ ہیں۔ وہ ہفتہ وار جنگ اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔

روزمرہ کی گفتگو اور خطابت کا مقصد سامنے  والی شخصیات اور عوام کو اپنے خیالات سے  متاثر کرنا ہوتا ہے۔ گفتگو کے دوران تو سامنے  والی شخصیات کے روبرو اپنے مافی ضمیر کو پیش کرنے کے کئی ایک مواقع پیش آتے ہیں لیکن تقریر یا خطابت میں کسی بھی رہنما کو  جلسہ یا میٹنگ کرنے ہی کی صورت میں اپنے خیالات سے عوام کو آگاہ کرنے کو موقع ملتا ہے۔ خطابت میں الفاظ کا چناؤ  عوام کے معیار کے مطابق ہی کیا جاتا ہے۔ لیڈر یا رہنما الفاظ سے استعمال میں جتنا زیادہ وسیع القبی کا مظاہرہ کرے گا اور الفاظ کا جتنا زیادہ ذخیرہ استعمال کرے گا عوام کو متاثر کرنے کے امکانات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ فنِ خطابت میں پانچ اصولوں کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ پہلی خصوصیت  ” برہان”  جس کا استعمال عموماً حکمت و فلسفہ کی بحثوں میں کیا جاتا ہے۔ دوسری خصوصیت  "جدل”  جس کی مدد سے دلائل کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ تیسری خصوصیت  ” سفسطہ جس  کے ذریعے مغالطوں یا غلطیوں کی مختلف صورتوں کو ظاہر کرکےغلطیوں سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ چوتھی خصوصیت  ” خطاب”  یعنی  اپنی بات دوسروں سے منوانے  کا طریقہ اور پانچویں خصوصیت ” شعر”  جس کے ذریعے  تخیلات اور ذوقیات کے ذریعے نفسِ انسانی  پر اثرا انداز ہونا ہوتا ہے۔ کسی بھی خطیب کے لیے انسانی نفسیات سمجھنا بےحد ضروری ہے اور ایک خطیب صرف  اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے  جب  اندازِ بیان  شگفتہ ہو  اور عوام اور خواص دونوں  کو متاثر  کرسکے ۔ کامیاب  تقریر  کے لیے مقرر کی شخصیت اور خصوصیات  بڑا ہم کردار ادا کرتی ہیں اور برجستہ اور فی البدیہہ تقریر صرف اسی صورت میں کامیاب رہتی ہے جب مقرر کو اپنےآپ پر مکمل اعتماد ہو اور ذرہ بھر بھی تذبذب کا شکار نہ ہو۔

جب ہم ان تمام نکات کی جانب توجہ کرتے ہیں تو موجودہ حالات میں دنیا بھر میں موجودہ حالات میں صرف ایک ایسا رہنما دکھائی دیتا ہے جس نے اپنے عوام کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہو اور اپنی خطابت کے سحر میں مبتلا  کر رکھا ہو۔ ایردوان نے اپنے استنبول بلدیہ کے مئیر ہونے کےدوران جو اشعار پڑھے تھے ان کے ان اشعار سے نہ صرف تمام ایوانوں کے در و دیوار ہل کر رہ گئے تھے بلکہ پورے ترکی میں بھونچال سا آگیا تھا۔ ان اشعار نے عوام کے جذبات کا آگ لگا کر رکھ دی تھی  اور عوام اُس وقت جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی (آق پارٹی) کے بانی رہنما ایردوان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے جوق در جوق آق پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ترک سیاست کا دھارا ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔  اُس وقت  ترکی کی  سیاست میں ابھرتے ہوئے اِس نوجوان رہنما رجب طیب ایردوان کے اشعار جو انہوں نے ترکی کی جنوب مشرقی صوبے ” سیرت”  میں اور جن کی وجہ سے ان کا جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا تھا  ان میں چند ایک اشعار کا ترجمہ درجہ ذیل ہے۔

گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں
مسجدیں ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں
صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں
کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی
میرے بھائیو! چاہیے وہ توپیں لائے
یا ٹینک سیدھے کرے
کبھی بھی ایمان کے قلعے کو روند نہیں سکے گا

رجب طیب ایردوان کے ان شعار نے ملک بھر میں ایک طوفان بھرپا کررکے رکھ دیا تھا  ۔قارئین کے لیے یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ رجب طیب ایردوان نے  اپنی تعلیم ترکی کے ایک جدید اور عام اسکول سے ہٹ کر ایک ایسے اسکول سے حاصل کی جو عام طور پر مذہبی تعلیم  دیے جانے اور مساجد کے پیش اماموں ہی کو پروان چڑھانے کے مقاصد  کے لیے استعمال کیا جاتا  تھا۔اس اسکول  کو ” امام خطیب ” سکول کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اس اسکول کی سب سے اہم خصوصیت اس اسکول  میں مذہبی  تعلیم جس میں  قرات، ناظرہ اور تفسیر  بھی شامل تھی   کے ساتھ ساتھ ترکی کے عام اسکولوں  میں دی جانے والی تمام مضامین میں جدید تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جاتا تھا  یعنی دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ اس اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے بچے ایک لحاظ سے دوسرے اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے والے اسکولوں  کے بچوں سے زیادہ  تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان نے امام خطیب اسکول کی جانب سے دی جا نے والی ان سہولتوں  کا بھر پو فائدہ اٹھایا  اور اپنے فنِ خطابت کو پروان چڑھانا شروع کردیا۔ جب آپ ترکی کی سیاست پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں ترکی کی  سیاست میں خطابت کے لحاظ سے  عوام  کو اپنی جانب متوجہ کرنے اورخطابت کے سحر میں کھینچنے کے لحاظ سے  ایسا کوئی  لیڈر نظر نہیں آتا  ہے جس کا مقابلہ  صدر ایردوان سے کیا جاسکتا ہو۔ اگرچہ ترکی کی سیاست میں بڑے بڑے سیاسی رہنما ہو گزرے ہیں (اس کیٹگری میں ترکی کی بانی غازی مصطفیٰ کمال اتاترک جدید جمہوریہ ترکی کی بانی  اور  فوجی شخصیت ہونے کی بنا پر شامل نہیں کیا جا رہا ہے) جن  میں  عصمت انونو،  عدنان میندریس، جلال بایار، سیلمان دیمرل،  بلنت ایجوت، ترگت اوزال، نجم الدین ایربکان، دینز بائیکال، آلپارستان ترکش اور کمال کلیچدار اوّلو  شامل ہیں اپنے فنِ  خطابت کے لحاظ سے ایردوان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتےہیں۔ ایردوان کو ان تمام رہنماؤں پر اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ ایردوان اپنے تمام خطابات میں حالات  کے مطابق اشعار پڑنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ ان کو ہزاروں کی تعداد میں اشعار زبانی یاد ہیں جو ان کو دیگر رہنماؤں  پر سبقت دلاتی ہے۔ خطابت دراصل لہجے کے اتار چڑھاؤ، آواز کے زیروبم اوراحساسات کے مدوجزرکانام ہےجس سے ایردوان پوری طرح آگا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ  ان کے مردِ مقابل تمام رہنما جو  خطابت کی نعمت سے  محروم ہیں  کو عوام  کی جانب سے بھی  پذیرائی حاصل نہیں ہو پاتی ہے۔ خطابت خوش نصیبوں کے ہی مقدرمیں لکھی  ہوئی ہوتی ہے  اور پھر وہ  اپنے اس فن کو وقتِ ضرورت  استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔  خطابت صحیح معنوں میں جادوگری ہے ،ساحری ہے ،پانی میں آگ لگادینے کاعمل ہے ،شہبازکو ممولے سے لڑا دینے کا ہنر ہے اورظالم مالک کے سامنے مزدورکوقوت حوصلہ عطاکرنے کافن ہے جن سے تر کی کے  موجودہ  صدر رجب طیب ایردوا ن پوری طرح  آگاہ ہیں۔ خطابت کی گوہرفشانیوں جامع ومانع، علمی، فکری اور سائنٹیفک خطبات سے اپنے سامعین کووہی محظوظ کراسکتا ہے جونہایت بالغ نظررہنما  ہو اور جسے عوام اور اپنے سامعین کے حالات سے پوری پوری آگاہی حاصل ہو۔ترکی کے صدر کھلے میدانوں میں جب عوام سے خطاب کرتے ہیں تو پھر  عوام کے  اذہان کے بنددریچے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں عوام ان سے پوری طرح آگا ہو  جاتے ہِیں  اور پھر بہتے سمندر کی طرح ان کے ساتھ بہتے ہی چلے جاتے ہیں  اور پھر ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ بننے کی جسارت ہی نہیں کرسکتا ۔ ایردوان اپنی خطابت صوتی آہنگ کابڑا خیال رکھتے ہیں اوراپنی آواز کے اتار چڑھاؤ  سے عوام  کے جذبات کو ابھارنے، تلاطم برپا کرنے اور پھر ان کو اپنے مقاصد کی جانب مائل کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں ۔ کون سی بات کس لہجے میں کہنی ہےیہ ان ہی کا خاصہ ہے۔  وہ عوام کے دلوں پر براہ راست اثرانداز ہونے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں۔ خطابت کی ایک اہم خوبی شائستگی اورشستگی بھی ہوتی ہے ۔یہ وہ خوبی ہے جوخطیب کے فکرومزاج کاآئینہ ہوتی ہے ۔اس آئینے میں خطیب کی شخصیت کے سارے خط وخال پورے طرح نمایاں ہوجاتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے  کہ  جب تک عوام کے جذبات میں مدوجزرنہیں ہوتاان کے دلوں  لرزش پیدا نہیں ہوتی اور ایردوان  ان کے جذبات کو اپنے جذبات ہی سمجھ کر خطاب کرتے ہیں اور پھر عوام  اور سامعین ان کے سحر میں خودبخود  اترتے چلے جاتے ہیں۔ ان  کو صوتی آہنگ پر اس قدر ملکہ حاصل ہے کہ کہیں دھیمےپن سے  اور کہیں گرج دارآواز میں اپنے مخالفین  کو بچھاڑ دیتے ہیں۔  ترکی میں مخالفین اور دیگر سیاسی رہنما   ؤں کو اس وقت تک اپنی دل گلتے ہوئے دکھائی نہیں دیتی ہے جب تک  ترکی کی سیاست میں رجب طیب ایردوان جیسی ہستی موجود ہیں۔ترکی یا پھر   دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی فہرست اٹھاکر دیکھ لیں صرف ان ہی رہنماؤں کو پذیرائی حاصل ہوتی ہے جن میں تخلیق کرنے، نیا ویژن اجاگر کرنے، علم وفکرکےسمندر میں  اترنے اور عوام کو  حالات کے مطابق ڈھالنے کی پوری پوری  صلاحیت  موجود ہو اور  اسی صلاحیت سے اللہ و تعالی نے رجب طیب ایردوان کو پوری طرح  بہرور کررکھا ہے۔  ایردوان کوصرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجودہ دور کا عظیم ترین خطیب  سمجھا جاتا ہے۔  اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ملک قیادت وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے اندر دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ خطابت کاملکہ بھی ہواسی لیے کہاجا تا ہے کہ قیادت ،خطابت کی کنیزہے ۔عوام الناس کوجتنی جلدی اورجتنے بہتر طریقے سے خطابت کے ذریعے کنٹرول کیاجاسکتاہے اور اذہان وافکار کو موڑا جا سکتاہے وہ صرف خطابت کے ذریعے ہی ممکن ہےاور  اس فن پر  ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان پورا اترتے ہیں۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: