زلزلہ آتے ہی ریاست اور اداروں نے متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات اٹھانا شروع کر دیے، صدر ایردوان
عزیز سنجر سائنس، سروس اینڈ انسینٹو ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے ازمیر میں آنے والے زلزلے کے حوالے سے کہا کہ ” ہماری ریاست نے زلزلہ آتے ہی اپنے تمام اداروں کے ساتھ مل کر اقدامات اٹھانا شروع کر دیے تاکہ ملبے تلے دبے شہریوں کو نکالا جا سکے اور تمام زلزلہ متاثرین کی مدد کی جا سکے۔ AFAD، افواج، صحت عامہ کے ادارے اور دیگر تمام سرکاری عہدیداران بے لوث اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔”
صدر رجب طیب ایردوان نے عزیز سنجر سائنس، سروس اینڈ انسینٹو ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کیا۔
ازمیر میں آنے والے 6.6 کی شدت کے زلزلے میں متاثرہ شہریوں کی جلد صحت یابی اور شہروں کی جلد بحالی کی دعا کرتے ہوئے صدر نے مرنے والے افراد کے لیے دعائے مغفرت کی۔
"ہم نے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کی تکمیل کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے ہیں”
صدر ایردوان نے کہا کہ "اس وقت ہمارا تلاش کا کام 17 عمارات میں جاری ہے۔ ہماری ریاست نے زلزلہ آتے ہی اپنے تمام اداروں کے ساتھ مل کر اقدامات اٹھانا شروع کیے تاکہ ملبے تلے دبے شہریوں کو نکالا جا سکے اور تمام زلزلہ متاثرین کی مدد کی جا سکے۔ AFAD، افواج، صحت عامہ کے ادارے اور دیگر تمام سرکاری عہدیداران بے لوث اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے وزراء فوراً ہی متاثرہ مقامات تک پہنچے تاکہ احکامات میدانِ عمل میں پہنچ کر دے سکیں۔ ہم نے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے اپنے تمام ذرائع استعمال کیے ہیں۔”
یہ بتاتے ہوئے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی، یونان کے وزیر اعظم کریاکوس مسوتاکس اور آذربائیجان کے صدر الہام علیف کی جانب سے اظہارِ یکجہتی اور زلزلے کے بعد جلد بحالی کی خواہش کا اظہار کیا گیا، صدر ایردوان نے تمام دوست ممالک کی مدد کی پیشکش کا بھی شکریہ بھی ادا کیا۔
"وباء اب تک 12 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہیں”
کووِڈ-19کی وباء کے حوالے سے صدر ایردوان نے کہا کہ بدقسمتی سے وباء لہروں کی صورت میں آ رہی ہے، اور "اب بھی حتمی اور درست علاج موجود نہیں، جبکہ وباء 45 ملین سے زیادہ افراد کو متاثر کر چکی ہے اور اب تک 12 لاکھ جانیں لے چکی ہے۔ ہماری سب سے بڑی امید اِس وقت ویکسین پر جاری تحقیق ہے، جو پہلے ہی استعمال کے مرحلے تک آ پہنچی ہے۔”
چین، روس اور امریکا میں ویکسین پر ہونے والی تحقیق پر کڑی نظریں رکھنے کے ساتھ ساتھ ترکی خود اپنی ویکسین تیار کرنے پر بھی کام کر رہا ہے، صدر نے کہا کہ "مجھے امید ہے کہ اگلے موسمِ بہار تک ہم اس مرحلے میں ہوں گے کہ اپنی ویکسین اپنے شہریوں کو دے سکیں۔ ہم رواں سال کے اختتام تک اپنے سائنس دانوں کی جانب سے ایک یا اس سے زیادہ ویکسینز کی منظوری کے بعد اسے اپنے شہریوں کے لیے پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہماری نظر میں اس دوران ترکش کونسل کے ہیلتھ سائنٹیفک بورڈ کا چوتھا اجلاس تعاون اور تجربات کو شیئر کرنے کے حوالے سے ایک اہم قدم ہے۔”
"ہم نے وباء کے دوران اپنے وسائل 155 ممالک اور آٹھ بین الاقوامی اداروں کے لیے پیش کیے”
صدر ایردوان نے کہا کہ "دنیا، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک نے باہمی تعاون اور یکجہتی کے حوالے سے اچھی کارکردگی پیش نہیں کی۔ یکجہتی اور تعاون تو ایک طرف، وباء کے دوران مظلوم اور متاثرہ افراد کو بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لیے تنہا تک چھوڑ دیا گیا ہے۔ البتہ ترکی نے اس معاملے میں ایک مثالی رویّہ اختیار کیا ہے۔ ہم نے مذہب، زبان، نسل یا خطے کے کسی امتیاز کے بغیر سب کے لیے امداد کی اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ ہم نے وباء کے دوران اپنے وسائل سے 155 ممالک اور آٹھ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے طبی امداد کے مطالبات پر مثبت ردعمل دکھایا۔”
"اب تک ہم نے جتنا فاصلہ طے کیا ہے وہ ہمیں مستقبل کی جانب اعتماد سے دیکھنے کا حوصلہ دیتا ہے”
ترکی کی نوجوان اور انتہائی تعلیم یافتہ آبادی کا ذکر کرتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ "ہم نے دیکھا کہ گزشتہ عہد میں ‘ترقی یافتہ’ کی حیثیت سے اپنے نشانات چھوڑنے والے ممالک کو اب آبادی کے نقصان کی وجہ سے مستقبل میں تشویش کا سامنا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ خدشات ہی بڑھتے ہوئے مغرب میں اسلاموفوبیا اور غیر ملکیوں کے خوف (زینوفوبیا) کے اسباب میں شامل ہیں۔”
وباء کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی دنیا، اور مستقبل میں ترکی کے ابھرنے کے حوالے سے صدر ایردوان نے زور دیا کہ کہ "ہم اس وقت جس نازک دور سے گزر رہے ہیں، اس کے بعد اور 2023ء کے لیے مقرر کردہ اہداف کی تکمیل کے بعد ہمارے پاس ایک نیا ترکی ہوگی۔ اب تک ہم نے جتنا فاصلہ طے کیا ہے وہ ماضی کے مقابلے میں ہمیں مستقبل کی جانب زیادہ اعتماد سے دیکھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ہمارا خود پر اور ملک پر بڑھتا ہوا اعتماد ہمیں 2023ء کے وژن کی جانب مضبوط اقدامات اٹھانے میں مدد دیتا ہے۔ ہمیں جن حملوں کا سابقہ درپیش ہے اور ہمارے سامنے جو رکاوٹیں ہیں، ان کے باوجود ہم ترکی کو سائنس سمیت دیگر شعبوں میں نمایاں ملک بنانے کے لیے پُرعز م ہیں۔”