دورۂ پیرس میں امریکی وزیر خارجہ کی ترکی پر تنقید

0 524

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پیرس کے دورے میں ترکی کو ہدف کا نشانہ بنایا ہے اور یورپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ترکی کے اقدامات کے خلاف امریکا کے ساتھ مل کر کام کرے۔

پومپیو نے ایک فرانسیسی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” صدر فرانس ایمانوئیل ماکرون اور میں نے اتفاق کیا کہ ترکی کے حالیہ اقدامات جارحانہ ہیں۔” وہ آرمینیا کے ساتھ نگورنو-قاراباخ تنازع میں ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی مدد اور ساتھ ساتھ لیبیا اور مشرقی بحیرۂ روم میں فوجی نقل و حرکت کا حوالہ دے رہے تھے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ "یورپ اور امریکا کو رجب طیب ایردوان کو قائل کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا کہ ایسے اقدامات عوام کے مفاد میں نہیں ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ ترکی کی جانب سے فوجی صلاحیت کا بڑھتا ہوا استعمال خدشے کی بات ہے، البتہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ ترکی کو نیٹو میں رہنا چاہیے یا اسے چھوڑ دینا چاہیے۔

سوویت یونین سے درپیش خطرے کے پیشِ نظر 1949ء میں بنایا گیا نیٹو اتحاد امریکی فوجی برتری پر بھروسہ کرتا ہے۔ نیٹو سیاسی اور عسکری لحاظ سے اپنے اراکین کی آزادی اور تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ ترکی نے 29 دیگر ممالک کے ساتھ 1952ء میں اس فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی اور سمجھتا ہے کہ نیٹو رکنیت ملک کی معاشی، عسکری اور سیاسی ترقی میں ایک مثبت حصہ ڈالے گی۔

ترکی تب سے نیٹو کا ایک اہم اتحادی ہے، لیکن حالیہ چند سالوں میں نیٹو اراکین اور ترکی کے درمیان اختلافات دیکھے گئے ہیں۔ ترکی اپنے سکیورٹی خدشات کو سمجھنے اور ایک اتحادی کا کردار باضابطہ طور پر ادا کرنے میں ناکامی پر نیٹو کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ خدشات بالخصوص PKK/YPG اور گولن دہشت گرد گروپ (FETO) کے حوالے سے ہیں، جو سالوں سے دونوں کے درمیان وجہ نزاع ہے۔

مشرقی بحیرۂ روم میں ہائیڈروکاربن تلاش پر یونان کے ساتھ حالیہ کشیدگی بھی نیٹو کے ساتھ اختلاف کی ایک اہم وجہ بن چکی ہے۔ ترکی کی جانب سے روس کے S-400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری نے بھی گزشتہ سال دونوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔

تبصرے
Loading...
%d bloggers like this: