صدر ایردوان کی 15 ویں ای سی او اجلاس میں شرکت
صدر رجب طیب ایردوان نے عشق آباد، ترکمنستان میں منعقدہ اقتصادی تعاون تنظیم کے 15 ویں اجلاس میں شرکت کی۔
صدر ایردوان نے 15 ویں ای سی او اجلاس سے خطاب کیا۔
"ہم اپنی ویکسین پوری انسانیت کے لیے وقف کریں گے”
پوری انسانیت جدید کرونا وائرس (کووِڈ- 19) کے خلاف تقریباً دو سال سے جدوجہد کر رہی ہے، ایک عالمی خطرہ کہ جو 50 لاکھ سے زیادہ جانیں لے چکا ہے اور معیشت، تجارت اور سیاحت سمیت ہر شعبے کو متاثر کر چکا ہے، صدر ایردوان نے اس امید کا اظہار کیا کہ اجلاس کووِڈ- 19 کے خلاف تعاون اور یکجہتی کو بہتر بنانے کی جانب رہنمائی کرے گا۔ "ترکی نے اس عرصے میں دنیا بھر سے ملنے والی امداد کی درخواستوں پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب تک ہم 12 بین الاقوامی اداروں اور 160 ممالک کو امداد دے چکے ہیں جس میں اس تنظیم کے اراکین بھی شامل ہیں۔ ہم نے اس تنظیم کے چند اراکین کو طبی آلات برآمد اور خریداری کے اجازت نامے دے کر مدد دی اور عملہ اور تربیتی امداد بھی فراہم کی۔”
ترکی 11 ممالک کو ویکسین فراہم کر چکا ہے، صدر ایردوان نے کہا کہ ہم نے اپنی مقامی طور پر تیار کردہ ترکو ویک ویکسین کو حال ہی میں ہنگامی استعمال کے لیے منظور کیا ہے۔ ایک مرتبہ یہ عمل مکمل ہو جانے کے بعد ہمیں امید ہے کہ یہ ہمارے عوام کے علاوہ پوری انسانیت کے لیے دستیاب ہوگی۔”
ہمیں اپنے تجارتی حجم کو 100 ارب ڈالرز تک پہنچانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کرنا ہوگا”
اجلاس کے موضوع "مستقبل میں ایک ساتھ” پر توجہ دلاتے ہوئے صدر ایردوان نے کہا کہ ” اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اس تنظیم کا بہتر استعمال کس طرح کر سکتے ہیں۔ اپنے مشترکہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جس نقشہ راہ کی ہمیں ضرورت ہے وہ ایکو وژن 2025ء کی دستاویز میں طے ہیں۔ ہم نے آج بحیثیت دستاویز تسلیم کیے گئے عشق آباد عملی قدم کو دیکھا جو اس سمت میں ہمارے مضبوط ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں اپنی جغرافیائی برتری کا بہتر استعمال کرنا چاہیے، جس میں 80 لاکھ مربع کلومیٹرز کے رقبے میں تقریباً 50 کروڑ کی زبردست آبادی رہتی ہے۔ ہمیں اپنے تجارتی حجم کو 100 ارب ڈالرز کی سطح پر لے جانے کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھانا ہوگا۔ اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلے ایکو وژن 2025ء کے تزویراتی مقاصد میں سے ایک ECOTA کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔”
"مہاجرین کا بحران روکنے کے لیے افغان معیشت کو بحال کرنا ہوگا”
صدر ایردوان نے کہا کہ "افغانستان میں دیرپا امن اور فوری استحکام بہت ضروری ہے، جسے بڑے انسانی و معاشی بحران کا سامنا ہے۔ یہ ہماری مشترکہ خواہش اور مقصد ہے کہ ملک کے تمام شعبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی سوجھ بوجھ رکھنے والی انتظامیہ بنائی جائے۔ ہم ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، جس میں صحت عامہ اور تعلیم جیسے اہم شعبے شامل ہیں۔ پورے خطے کو مہاجرین کے کسی ممکنہ بحران سے بچانا ہے تو افغان معیشت کو بحال کرنا ضروری ہے۔ ترک ہلالِ احمر اور ہمارے غیر سرکاری اداروں نے افغانستان میں بھوک اور قحط کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی خدمت خلق کی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ ایران پر یک طرفہ پابندیوں کا خاتمہ اور تمام فریقین کا ایک مرتبہ پھر جامع عملی قدم کی جانب لوٹنا اور اپنی ذمہ داریوں پورا کرنا خطے کی معاشی خوش حالی اور استحکام میں اپنا کردار ادا کرے گا۔”
"ترک قبرص کے باشندوں کے یکساں بین الاقوامی حقوق کو تسلیم کرنا حل کی کنجی ہے”
آذربائیجان کی جانب سے اپنے مقبوضہ علاقے کی آزادی نے خطے میں پائدار امن اور استحکام کا راستہ ہموار کیا ہے، صدر ایردوان نے کہا کہ "یہ ظاہر کرتا ہے کہ آذربائیجان ترقی کے حصول کے لیے ایک کے بعد دوسرے اقدام کو نافذ کر رہا ہے جو قابلِ ستائش عمل ہے۔ یہ اقدامات خطے کے حالات کو معمول پر لائیں گے۔ ترکی اس عرصے میں آذربائیجان کے شانہ بشانہ رہے گا۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت تنظیم آذربائیجان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کریں۔”
قبرص کے معاملے پر صدر ایردوان نے کہا کہ "ترک قبرص کے باشندوں کے حقوق اور درجے کو بین الاقوامی سطح پر یکساں طور پر تسلیم کرنا مسئلہ قبرص کے حل کی کنجی ہے۔ میں دوست اور برادر ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بغیر کسی تعصب کے اس مسئلے کے حل کے لیے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے وژن کو دیکھیں۔ ہم کھیل، ثقافت، تعلیم اور سیاحت کے شعبوں میں تعلقات کو بہتر بنا کر ترک قبرصی باشندوں کی تنہائی ختم کر سکتے ہیں، جو اس تنظیم کے مبصر کی حیثیت سے رکن بھی ہیں۔”
صدر ایردوان نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علاقائی اور بین الاقوامی تعاون بہت ضروری ہے۔ ہمیں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز کار روائی جاری رکھنا ہوگی۔ امن، استحکام اور اقتصادی تعاون کو تحریک ملے گی جب ہمارا خطہ PKK/YPG، FETO اور داعش جیسی خوں آشام دہشت گرد تنظیموں سے پاک ہوگا۔ اس ضمن میں ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اظہارِ یکجہتی بہت اہم ہے۔”