ایردوان نے سیکولر اتالیقوں کے تابوت میں آخری کیل ڈھونک دی
ترک صدر رجب طیب ایردوان نے سیکولر اتالیقوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے عدنان میندریس کا میوزیم کھول کر سیکولرازم کے تابوت میں آخر کیل ڈھونک دیا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے اس جزیرے کو بحال کرتے ہوئے اور اسے حریت و جمہوریت جزیرے کا نام دیتے ہوئے ساری دنیا کے کھول دیا جہاں سابق ترک وزیراعظم عدنان میندریس کو قید رکھ کر بالآخر پھانسی دے دی گئی تھی۔
ترکی کے سیکولر حلقے اس تاریخ ساز قدم پر حیران اور پریشان ہیں کہ آخر کیسے یہ اتنا بڑا قدم اٹھایا گیا ہے کہ وہ عدنان میندریس جسے ملک کے طاقتور ادارے اور سیکولر اتالیقوں نے قتل کر دیا تھا، اسے تاریخ میں زندہ رکھا جائے بلکہ تاریخ کو درست کرتے ہوئے انہیں اچھے لفظوں میں ترک تاریخ کا حصہ بنایا جائے۔
اس بے خوف قدم اٹھانے پر ترک صدر ایردوان سے ایک عوامی مجلس میں سوال بھی پوچھا گیا کہ کیا وہ ڈرتے نہیں ہیں۔ کیا ان کے ساتھ وزیر وزراء اور مشیر خوفزدہ نہیں تو انہوں نے بے خوف ہو کر کہا کہ ہم اس راستے پر کفن پہن کر نکلے ہیں۔ اگر خوف کو سر پر سوار کرتے تو کچھ نہ کر پاتے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مسلمان کی کتاب میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں لکھی ہوتی۔ موت کو موت دے دینا چاہیے کیونکہ ان کا یقین ہے کہ ہر قدر کے اور اوپر ایک قادر ذات بھی موجود ہے۔ اس لیے وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہیں۔ موت یقینی ہے۔ ہم نے اپنی پارٹی بناتے ہوئے یہ نعرہ لگا کر کہ بس اب فیصلہ عوام کا، اس سفر پر نکلے تھے۔ رائے بھی اس قوم کی، فیصلہ بھی اس قوم کا کہتے ہیں یہاں تک سفر طے کر لیا ہے۔
Are you not afraid of your bold actions (against Turkish secular elite)? Erdogan Answered – YouTube
اس موقع پر وزیر داخلہ سلیمان سوئلو جذباتی ہو گئے اور اپنی بے خوف و خطر پالیسیوں کا جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
عدنان میندریس کی تاریخ بھی عجیب ہے وہ بانی ترکی مصطفے کمال اتاترک کے پسندیدہ تھے، اتاترک ان کی غیر معمولی صلاحتیوں کا گرویدہ ہو گیا تھا۔ انہی کی ہدایت پر عدنان میندریس ترک پارلیمنٹ کا حصہ بنائے گئے۔ لیکن ترکی میں سخت ترین سیکولرازم لانے والے عصمت انونو کے صدر بننے کے بعد ان کے پارٹی کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے۔
عدنان یندریس نے 1946 میں اپنی پارٹی قائم کی۔ پارلیمنٹ میں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے ملک میں ایک سے زیادہ جماعتیں قائم کرنے کے قانون کو پاس کروا لیا۔ 1950ء میں وہ 69 نشتوں کے مقابلے میں 408 نشتیں حاصل کرتے ہوئے ترکی کے وزیر اعظم بن گئے۔
56سال کے بعد بھی عدنان میندریس کا ممتاز مقام ہمارے دل میں موجزن ہے، ایردوان
عدنان میندریس کے دور حکومت کو سفید انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ انہوں نے جمہوری قدروں کو بحال کیا، عوام کو خوشحال بنانے پر توجہ دی دین اسلام پر عمل کرنے کی پابندیاں ختم کر دی گئیں۔ ترکی میں پہلی بار ترقی کرنا شروع کر دی۔
لیکن عدنان میندریس پر ایک فرد جرم عائد کیا گیا کہ انہوں نے 1932ء سے عائد اذان اور تکبیر پر پابندی کو ختم کر دیا تھا۔ عدنان میندریس نے ایک تار کے ذریعے تمام صوبوں کو خود اطلاع دی کہ یہ پابندی ختم کی جا رہی ہے صبح فجر کی اذان دی جائے۔ 17 جون 1950ء ترکی کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے جب 18 سال کے بعد ترکی کے طول و عرض میں پہلی مرتبہ عربی میں اذان دی گئی۔
عدنان میندریس کے دور میں مسجدیں بھی کثرت سے تعمیر کی گئیں جن میں انقرہ میں اتاترک کے مزار کے سامنے قائم مسجد بھی شامل ہے جس کے لیے عدنان نے اپنی جیب سے ایک لاکھ لیرا دیے۔
علاوہ ازیں عدنان میندریس کے دور میں حج پر عائد پابندیاں بھی اٹھالی گئیں اور 1950ء میں 25 سال بعد 423 ترکوں نے فریضۂ حج ادا کیا۔
پورے ترکی میں ان کی شہرت اور نیک نامی عام ہو گئی۔ 1957ء کے انتخابات بھی انہوں نے جیت لیے۔ اس کی پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے سیکولر اتالیقوں اور سیکولر فوج نے ان کا تختہ الٹتے ہوئے انہیں گرفتار کر لیا۔ انہیں استنبول سے دور ایک جزیرے پر قید کر کے نمائشی مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔
آج صدر ایردوان نے اسی عدنان میندریس کو ترک تاریخ میں زندہ کر کے سیکولر اتالیقوں کے بت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔